باسمہ تعالی
باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام موسی کاظم کے مزار اقدس کو بلاتفریق تمام مورخین محققین اور تمام مسالک کے آئمہ و علماء کی جانب سے حاجات کی قبولیت کی سند مانا گیا ہے اسی لئے انہیں باب الحوائج کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔امام موسیٰ کاظم حکمرانوں اور بالادستوں کی جانب سے شریعت مصطفویؐ میں من مانی تبدیلیاں کرنے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہے حق کے علمبردار اور مظلوموں کے طرفدار رہے اسی لئے قید و بند کی صعوبتیں ان کا مقدر رہیں
امام پہ انتہائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزرگئی
برصغیر پاک و ہند میں عظیم اولیائے کرام بانی اسلام آبادحضرت بری امام ، شاہ عبد الطیف بھٹائی، حضرت سخی سرور، حضرت شاہ نذر دیوان ، بابا شاہ زین، سلطان صدر الدین مشہدی ، شاہ چن چراغ، سخی شاہ پیارا خطہ کشمیر میں اسلام کے پہلے مبلغ سید شرف الدین موسوی عرف بلبل شاہ ، مظفر آباد کے سائیں سہیلی سرکار جیسے لاتعداد عظیم اولیائے کرام حضرت امام موسیٰ کاظم کی اولاد سے ہی ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق کے فرزند ارجمند امام موسی کاظم کا شجرۂ نسب 5 واسطوں سے رسول خداؐ سے جا ملتا ہے ۔امام موسی کاظم 7صفر 128ہجری کو مکہ و مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پردنیا میں تشریف لائے۔ ابواء ایک بستی کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان، سقیا سے 19 کلومیٹر اور جحفہ سے 27 کلومیٹر اور سمندر سے ایک دن رات کے فاصلے پر واقع ہے۔ رسول اللہؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ بنت وہب ہجرت سے 46 سال قبل اسی مقام پر انتقال کرگئی تھیں۔حدییبہ کے واقعے میں رسول اللہؐ ابواء میں اپنی والدہ کی قبر پر حاضر ہوئے گریہ کیا اور قبر کی مرمت کی۔( طبقات ابن سعد )
بغداد 145ھ میں عباسیوں نے آباد کیا شہر بغداد میں جو پہلا مقبرہ بنا وہ امام موسی کاظم کا تھا (تاریخ بغداد)آپ کی والدہ گرامی حضرت حمیدہ بربریہ ہیں جن کا تعلق اندلس سپین سے تھا۔آپ کی ولادت پر حضرت امام جعفرصادق کو اس قدر مسرت و شادمانی ہوئی کہ آپ نے مدینہ جاکر تمام اہل مدینہ کودعوت طعام دی تھی۔(بحار الانوار)
آپ کا نام موسیٰ اورمشہور القاب: عبد صالح ، کاظم ، باب الحوائج،نفس ذکیہ ،صابراور امین تھے۔ سب سے زیادہ شہرت کاظم کو ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بدسلوک کے ساتھ احسان کرتے ،ستانے والے کو معاف کردیتے آپ بے حد حلیم اور بُردبارتھے۔(روضۃالشہدائ،شواہدالنبوۃ،تاریخ خمیس) مدینے کے لوگ انہیں زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے ۔(مفید)اہل سنت کے مشہور عالم ابن حجر ہیتمی رقمطراز ہیں: آپ بہت زیادہ درگذر کرنے اور بردباری کی وجہ سے"کاظم"کہلائے اور اپنے زمانے کی عابدترین، دانا و عالم ترین اور انتہائی فیاض شخصیت کے مالک تھے۔(صواعق محرقہ )
ابن شہر آشوب نے تحریر کیا ہے کہ موسیٰ ابن جعفر فقہ اور حفظ قرآن میں اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے بہتر تھے۔ قرآن مجید کی بہترین آواز سے تلاوت کرتے تھے قرات قرآن کے وقت گریہ فرماتے تھے ساتھ ساتھ سامعین بھی گریہ فرماتے تھے۔
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ شافعی امام موسی کاظم کے بارے میںفرماتے ہیں:
’’وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے ، جن کی کرامات ظاہر تھیں۔آپ اپنے زمانے میں علم و فقہ میں مشہور تھے آپ کے زمانے کے لوگ ،آپ کے عظیم علمی مرتبہ کا اعتراف کرتے تھے اور آپ کو افقہ سب سے بڑا فقیہ سمجھتے تھے۔ امام موسی کاظم نے عبادت اور اپنی زندگی کے دوسرے امور کی دیکھ بال میں مصروف رہنے کے علاوہ اپنا زیادہ وقت دینی علوم کی ترویج ، لوگوں کی ہدایت ، شاگردوں اور راویان حدیث کی تعلیم و تربیت میں صرف کیا۔ آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں ، عرش الہی پرایک سایہ ہے جہاں ایسے لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے اپنے بھائیوں کے حق میں نیکی اور بھلائی کی ہوگی، یا مشکلات میں ان کی مدد کی ہوگی۔امام موسیٰ کاظم کا روز مرہ کا ایک معمول محتاجوں اور ناداروں کی خبر گیری کرنا تھا۔علّامہ شیخ مفیدؒ لکھتے ہیں امام موسیٰ کاظم رات کی تاریکیوں میں نکل کر شہر مدینہ کے غریبوں ، محتاجوں اور ناداروں کی دلجوئی فرماتے اور ان کے گھروں کو جاکر انہیں اشیاء ، خوراک اور نقد رقومات فراہم کرتے۔
امام طویل مدت تک ہارون عباسی کی قید میں رہے ،طویل قید نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کے بدن مبارک کو گھْلا کر رکھ دیا ۔ایک مرتبہ بادشاہ کے ایک نمائندے نے آپ سے عرض کیا :''بادشاہ آپ سے معذرت خواہ ہے اور اس نے آپ کی آزادی کا حکم دیا ہے ، بشرطیکہ آپ اس سے ملاقات فرما کر معذرت طلب کریں،امام نے نہایت بے نیازی کے ساتھ صریح الفاظ میں نفی میں جواب دیا ، یوں آپ نے شہادت کا تلخ جام پینا گوارا فرما لیا، ظلم کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا۔ آپ نے قید خانوں کو عبادت گاہوں میں بدل دیا حضرت امام موسی کاظم اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے گریہ کی کثرت کی وجہ سے آپ کی ریش تر ہو جاتی(تاریخ بغدادی )ہارون کے زندان میں امام قسم قسم کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں او راذیتیں روا رکھی گئیں ۔ آپ نے اپنے دور کے آمروں و ڈکٹیٹروں کو یہ بتایا کہ ہمارے جسموں کو قید کیا جاسکتا ہے مگر ہمارے دلوں کو پابند نہیں کیا جاسکتا ۔ آخر کار آپ کو سندی بن شاہک کے ذریعے زہر دے دیا گیا اور 25، رجب 183 ھ کو آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے( ابن خلکان :ج2، ص173 اور تاریخ بغداد)