جمہوریت اور شخصیت پرستی

بے نقاب  اورنگ زیب اعوان 


laghari768@gmail.com

دنیا بھر میں عوامی رائے جانچنے کے لیے انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں کے منشور کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ انہیں ووٹ ڈالتی ہے۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں جمہوری روایات کے مطابق اکثریتی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ملک پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں عوامی رائے جانچنے کا پیمانہ شخصیت پرستی پر مبنی ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں کے منشور کی بجائے۔ مقبول ترین سیاسی شخصیات کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے۔ کہ ملک پاکستان نے آج تک ترقی نہیں کی۔ دنیا بھر میں حکومتی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ مگر ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ وہاں جمہوریت ہے۔ جمہور کا مطلب ہی اکثریتی عوامی رائے ہے۔ وہاں شخصیت پرستی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالے جاتے۔ ہمارے ملک میں چند شخصیات کو سیاہ سفید کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔ اور ان کی غلامی کو عوام اپنا منشور بنا لیتی ہے۔ یہ مٹھی بھر سیاسی شخصیات خود کو عوام کا مالک سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں الیکشن سیاسی منشور کی بجائے۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت آمیز بیانات پر لڑے جاتے ہیں۔ جو جیت جاتا ہے۔ وہ پہلے سے برسر اقتدار حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو کرپشن کی بنیاد قرار دے کر سرے سے ہی بند کر دیتا ہے۔ اس بات کا احساس کیے بغیر کے غریب قوم کا اربوں روپیہ ان ترقیاتی منصوبوں کی مد میں خرچ ہو چکا ہے۔ یہ اپنے دور حکومت میں نئے منصوبہ جات کا آغاز کر دیتا ہے۔ یہ انتقامی سیاست کا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اسی وجہ سے ملک پاکستان شدت پسندی کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ایک چیز پر اتفاق کیا ہوا ہے۔ ان کے ہاں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے ٹھینک ٹینک بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر آنی والی نئی حکومت کو مجبور کرتے ہیں۔ کہ وہ ان قومی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کو ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ اور ایسا پی ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں ہوتیں ہیں۔ جو اس سیاسی جماعت کے رحم و کرم پر ہوتیں ہیں۔ وہ اسے کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ ملک پاکستان میں منشور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لوگ سیاسی شخصیت کو مدنظر رکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ یہی شخصیت ان کے مقدر کا فیصلہ کرتی ہے۔ سیاسی شخصیات عقل کل نہیں ہوتیں۔ یہ سب سے پہلے اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں۔ عوام تو ان کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ ان کا اولین مقصد اپنی دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ ملک میں ترقیاتی منصوبے ہی اس سوچ کے تحت شروع کرتیں ہیں۔ کہ ان کو کمیشن کتنا ملے گا اور کون سا منصوبہ ان کے مفاد میں ہو گا۔ شخصیت پرستی جمہوریت کی ضد ہے۔ کیونکہ جمہوریت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ جبکہ شخصیت پرستی عوام کے لیے مشکلات کا سامان پیدا کرتی ہے۔ ہماری مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ دنیا چاند پر قدم رکھ چکی ہے۔ ہم آج بھی شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہے۔ انگریز نے ہمیں ایسا نظام تعلیم دیا ہے۔ جس کو پڑھ کر ہم ذہنی غلام ہی رہتے ہیں۔ تعلیم ہمارا کچھ نہیں سنوار سکتی۔ پڑھا لکھا طبقہ ایسی ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر لگاتا ہے۔ جس کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور ان کی ذہنی کیفیت پر ہنسی آتی ہے۔ یہ اپنے بیان کو جھوٹ ثابت ہونے پر بھی ڈیلیٹ نہیں کرتے۔ کیونکہ انہیں اپنے جھوٹ پر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا۔ یہی سوچ ہماری قوم کی ذہنی پستگی کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ کاش ہم لوگ گروپس میں تقسیم ہونے کی بجائے۔ ایک قوم بن سکتے۔ ان سیاسی شخصیات نے عوام کو کچھ نہیں دینا۔ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ حالیہ الیکشن کے بعد سب اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں۔ ہر کوئی دھاندلی کا شور مچا رہا ہے۔ اور مطالبہ کر رہا ہے۔ کہ ہماری سیٹیں پوری کر دو۔ عوام ان سے پوچھے۔ کہ وہ یہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں۔ اور انہیں کیسے پتہ ہے۔ کہ ان کی کتنی سیٹیں ہیں۔ مطلب سب نے پس پردہ کوئی معاہدہ کیا ہوا تھا۔ کہ مجھے اتنی سیٹیں دینی ہیں ۔ الیکشن تو ایک ڈرامہ تھا۔ ارباب اختیار سے پوچھنا تھا۔ کہ غریب قوم کا اربوں روپیہ الیکشن جیسے ڈرامہ پر کیوں خرچ کرتے ہیں۔ سب کو سیٹیں تقسیم کرکے دے دیا کریں۔ الیکشن جیسا مزاخ خیز ڈرامہ رچانے کی تکلیف کیوں کرتے ہیں۔ الیکشن 2024 کے بعد ہر سیاسی جماعت دھاندلی کا شور کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستانی قوم کو الیکشن سے کچھ لینا دینا نہیں۔ کیونکہ الیکشن نے عوام کو کچھ نہیں دینا ہوتا۔ سوائے ذاتی رنجشوں کے۔ عوام جن کو اپنا مسیحا تصور کرتی ہے۔ وہی اس کا خون چوستے ہیں۔ پاکستانی قوم کو شخصیت پرستی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اور ایک قوم بن کرکے ملک کی ترقی کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی۔ کب تک ہم لوگ ان سیاسی شخصیات کے پیچھے ذلیل و رسوا ہوتے رہے گے۔ ان کو اپنا دنیاوی خدا بنانے کی بجائے۔ خود اپنے لیے سوچنا شروع کرے۔ خدارا جمہوریت اور شخصیت پرستی میں فرق جان کر جینا سیکھے۔ جمہوریت میں مقررہ وقت پر حکومت سازی کا عمل کیا جاتا ہے۔ شخصیت پرستی میں ہم لوگ صرف اور صرف جیت کو پسند کرتے ہیں۔ شکست کا تو تصور تک ہماری سوچ میں نہیں ہوتا۔ الیکشن میں شکست کے بعد ہمارے ضمیر بھی جاگ جاتے ہیں۔ ہم قوم کو سچ بتانا ہم فرض اولین تصور کرتے ہیں۔ کاش ہمارے ضمیر اس وقت بھی اسی طرح سے بیدار ہو سکتے ۔ جب ہم اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو کر ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ فوج کو ہر سیاسی جماعت برا بھلا کہتی ہے۔ اور ہر سیاسی جماعت اس سے مدد کی بھی طلب گار رہتی ہے۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کا دوہرا معیار ہے۔ جس کی سزا ملک پاکستان اور قوم بھگت رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو پتہ ہے۔ کہ عوام میں اس کی مقبولیت کیا ہے۔ پھر بھی فوج سے گلہ شکوہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ الیکشن جیسے بھی ہوئے۔ ہو گئے۔ اب حکومت سازی کا مرحلہ چل رہا ہے۔ عوام کو اس ڈرامہ کو جلد از جلد ختم کرکے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے پچھلے 76 سال سے دھاندلی زردہ الیکشن کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ اب تو عوام بھی دھاندلی کی گردان سے تنگ آ چکی ہے۔ جس کو اکثریت مل جاتی ہے۔ وہ الیکشن کی شفافیت پر بات کرتے نہیں تھکتا ۔ اور جو ہار جاتے ہیں۔ وہ دھاندلی کی گردان اور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ الیکشن غلط یا صحیح ہونے کا نہیں۔ بلکہ ہماری فرسودہ سوچ کا ہے۔ ہم شخصیت پرستی کے سحر میں اس قدر مبتلا ہو چکے ہیں۔ کہ ہمیں اس سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ صبح و شام ہر کوئی ان کے قصیدے پڑھنے میں لگا ہوا ہے۔ جس دن ہم نے بحثیت قوم اپنے مسائل کے حل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔ ہمارے آدھے سے زائد مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ الیکشن کے ڈرامہ کو ختم کرکے آگے بڑھے۔ قوم کو اپنا کام کرنے دے۔ یہ سب لوگ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قوم کا مفاد کہی نظر نہیں آتا۔ قوم کو بھی اپنے مفادات کا خود سے تحفظ کرنا ہوگا۔ کب تک ان لوگوں کے آلہ کار بن کر انہیں سہولت فراہم کرتے رہے گے

ای پیپر دی نیشن