ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں سگریٹ نوشی نشہ سے زیادہ فیشن کا رخ اختیار کر چکی تھی۔اس زمانے کے رومانوی ہیروز کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی کئی مرتبہ چوری چھپے چند کش لگا ہی لیے لیکن دھوئیں کو سینے میں اتارنے (Inhaling) کی ہمت نہ تھی۔سال 1970 ملٹری کالج جہلم میں داخلہ مل گیا۔ ابتدائی جماعت ہشتم شیر شاہ ہاو¿س میں پروفیسر سعید راشد (اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے) کی عقابی لیکن مشفق نگاہوں میں دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ لیکن نویں جماعت میں ترقی اور اورنگزیب ہاو¿س میں منتقلی کے ساتھ ہی آزادی کے نئے در وا ہوئے۔ یہیں سے سگریٹ نوشی جیسی بدعت کا آغاز ہوا اورمیٹرک تک جاتے جاتے یہ پختہ عادت بن گئی۔ حصول سگریٹ کے لئے سرائے عالمگیر سے رسد لانی ضروری تھی۔ کیونک کالج کینٹین سے سگریٹ کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ ان دنوں جہلم میں والد صاحب ایک طیارہ شکن رجمنٹ کمان کر رہے تھے، جب میں آخر ہفتہ گھر جاتا تو سگرٹ وغیرہ لے آتا۔ ایک دن ہم کالج کینٹین گئے تو نئی تزئین و آرائش دیکھ کر کافی مسرت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ نئی انتظامیہ آگئی ہے۔ کچھ دن بعد دوبارہ چکر لگا تو مہتمم کینٹین(غالباً جمروز خان نام تھا) نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے اور ساتھ ہی خاکی لفافے میں ایک سگریٹ کی ڈبیہ اور ماچس ہاتھ میں تھما دی،استفسار پے اشارے سے بتایا کہ حساب میں لکھ دونگا۔ جب سگریٹ نوش دوستوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو ہماری بڑی واہ واہ ہوئی اور شکر ادا کیا کہ سرائے عالمگیر جانے سے چھٹکارا ملا۔ اگلی شام ہم پھر سے اپنے دخانی ہمجولوں کے جلو میں کسی فلمی ہیرو کی مانند کینٹین میں وارد ہوئےاور سیدھےکاو¿نٹر پر جاکرنہایت فلمی انداز میں ایک کہنی کاو¿نٹر پر ٹکا کر گویا ہوئے”ایک پیکٹ کیپسٹن“ کاو¿نٹر پر کھڑا لڑکا ہماری بیہودہ فرمائش سے گھبرا گیا اور فوراً پچھلے حصے میں مزید ہدایات لینے غائب ہوگیا۔ خیر تھوڑی دیر بعد ھاتھ میں خاکی لفافہ پکڑے نمودار ہوا اور ہمیں پکڑا کر پھر غائب۔ اب تو اپنے اور دخانی دوستوں کے تو مزے ہی لگ گئے۔ لیکن جس طرح بہار سدا نہیں رہتی اسی طرح ہمارا یہ سلسلہ بھی جلد ہی انجام کو پہنچا۔ عرصہ دراز بعد ہمارے ایک قریبی مہرب جو کہ والد صاحب کے جہلم میں ایجوٹنٹ تھے نے قصہ سنایا ”کہ ایک دن ھاشمی صاحب کے اپنے دفتر بلانے پر دیکھا تو ان کے سامنے تین انچ چوڑائی اور ڈیڑھ فٹ لمبائی والا کینٹین کا بہی کھاتہ رجسٹر پڑا تھا۔ کرنل صاحب بے یقینی لیکن غصے کے عالم میں اپنے نام کے آگے لکھیں ولز اور کیپسٹن سگریٹوں کی تفصیلات دیکھ رہے تھے۔ اس سے پیشتر کہ میں صورتحال جانتا، وہ ملٹری کالج کےچیف انسٹرکٹر کرنل اکرام امین (بعدازاں بریگیڈیئر، ایک شاندار استاد) کی کال ملا چکے تھے۔ خیر میں نے بھی دفتر آ کر ملٹری کالج کے ایجوٹنٹ کیپٹن صولت عباس (بعد ازاں بریگیڈیئر، 12 پنجاب، اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے) کو صورتحال سنبھالنے کو کہا۔ ”ادھرہم اپنی کلاس میں فزکس کی گھتیاں سلجھانے میں مشغول تھے کہ ایجوٹنٹ دفتر سے بلاوہ آیا۔ سمجھا گھر سے فون آیا ہو گا لیکن دفتر کے برآمدے میں کینٹین کے سٹاف کو بقطار دیکھ کر ماتھا ٹھنکا۔ دفتر میں داخلے پر صولت عباس میز کے سامنے آئے اور میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں اور آئندہ کی تنبیہہ کرتے ہوئے واپس جانے کو کہا (انھوں نے گجرات میں ہمارے قریبی گاو¿ں معین الدین پور سے تعلق کے باوجود ھتھ ہولا نہ رکھا)۔ ہم دونوں ہاتھ بغل میں دبائے، کینٹین سٹاف پر ایک قہر آلود نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی کلاس کو سدھار گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کالج اور والد صاحب کی رجمنٹ کے کینٹین کا کنٹریکٹر ایک ہی صاحب تھے۔ سگریٹ کے بنا وہ شام نہایت ہی غمگیں تھی۔ بقول شاعر:
اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
خیر ایسے میں بھی بے لوث دوست ہی کام آتے ہیں۔ ہمارے ایک ہم جماعت بھون چکوال کے ممتاز خان اعوان دوڑ میں بڑے تیز تھے۔ انھیں ایک روپیہ تھمایا (90 پیسے ولز کی ڈبیہ اور 10 پیسے کی ماچس) اور سرائے عالمگیر سے رسد لانے کی گزارش کی۔ ہماری توقعات کے عین مطابق وہ پریپ ٹائم سے 15 منٹ قبل ھانپتے کانپتے سگریٹ لے کر وارد ہوئے جنہیں ہم نے کوٹہ سسٹم کے تحت دوستوں کے ساتھ نہایت احتیاط سے استعمال کیا۔ ملٹری کالج کا بقیہ عرصہ بنا کسی مزید واردات کے سکون سے گزر گیا۔
1975میں FScکے امتحانات کے بعد طویل تعطیلات کے لئے کراچی چلے گئے کیونکہ والد صاحب کی پوسٹنگ ملیر چھاو¿نی میں تھی۔ کراچی میں ہم روزانہ اپنے ہم جماعت شوکت چاندنہ ( بلوچ رجمنٹ) سے ملنے میٹروپول ہوٹل میں ان کے دفتر چلے جاتے اور پھر اسی علاقے میں مٹر گشت کرتے۔ اس زمانے کی کلب روڈ، ایلفنسٹن سٹریٹ اور وکٹوریہ روڈ آجکل کی آکسفورڈ سٹریٹ لندن کا منظر پیش کرتیں۔ خوبصورت اور صاف سڑکیں، چمکتی کاریں اور اونچی ایڑی پہنے خوش لباس پری نما دوشیزائیں فرانس کی کسی عمدہ گزر گاہ کامنظر دکھتیں۔ اسی دوران رمضان میں ہم نے دیکھا کہ کراچی کے ہوٹل اور ریستوران بلا کسی رکاوٹ کے کھلے ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی سگریٹ کی طلب کی بنا روزے نہ رکھے جس کا آج تک قلق ہے۔ نومبر 1975 کاکول اکیڈمی میں داخلہ باقی کیڈٹس کے لیے تو شاید مشکلات کا باعث ہو، ہمارے تو وارے نیارے ہو گئے۔ وہاں سگریٹ پینے کی آزادی تھی۔ البتہ کھلے آسمان تلے تمباکو نوشی پر پابندی عائد تھی افسری کا احساس ہوتے ہی برینڈ بھی بڑھیا ہو گیا۔ اب ہم نے ولز یا کیپسٹن کو داغ مفارقت دے کر ”گولڈ لیف“ جیسے اعلیٰ نام کو اپنا لیا جسکی بیس سگریٹ والی ڈبیہ فقط چھ روپے کی تھی۔ اگرچہ سر پے رنگروٹ کٹ اور مونچھیں صفا چٹ تھی پھر بھی کش لینے کے اسٹائل اور دھوئیں کے مرغولے بنانے کے فن میں ایک نکھار سا آ گیا۔ پہلی نصف چھ ماہی چھٹی کے دوران نیوی بلیو کوٹ، سلیٹی مائل پتلون پہنے، ھاتھ میں گولڈ لیف کا پیکٹ پکڑے ہم اپنے آپ کو نیم لیفٹین سمجھنا شروع ہو گئے۔ لیکن حقیقت میں ’ہنوز دلی دور است‘۔ افسوس یہ آزادی دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ 1977 میں 56 لانگ کورس سے کمیشن حاصل کرنے کے بعد بحیثیت نیم لفٹین تعیناتی بھی والد صاحب کی سابقہ رجمنٹ میں جہلم چھاو¿نی ہو گئی اور اپنے گھر میں قیام کی بنا پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہی عائد رہتی۔ اب تو والد صاحب کو بھی اس بدعت ناہنجار کا یقین ہی ہو گیا تھا۔ ایک دن ریور ویو روڈ جہلم چھاو¿نی (موجودہ گالف کورس کے متوازی) پر واک کرتے ہوئے والد صاحب نے تنبیہہ کی ”جو نوجوان سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ان کے ہونٹ کالے ہو جاتے اور لڑکیاں ان سے شادی ہی نہیں کرتیں۔“ اس بے ضرر سی پیار بھری دھمکی کا ہم جیسے پیشہ ور سگریٹ نوش پر رتی بھراثر نہ ہوا۔ خیر سال 1980 کے آغاز کے ساتھ ہی روسی افواج کی افغانستان پیشقدمی کی بنا ہماری رجمنٹ ٹل، پاراچناد سیکٹر میں فضائی دفاع مہیا کرنے تعینات ہوگئی۔ علاقہ غیر میں کافی غیر ملکی برینڈز بھی میسر تھے لیکن گولڈ لیف کی بات ہی اور تھی۔ دو سال علاقہ غیر میں گزارنے کے بعد ہمارا خیال تھا کی اب پوسٹنگ لاہور جیسے کسی پر فضا اور رنگین اسٹیشن پر ہو گی، لیکن اسوقت ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جب ہمارے ہاتھ میں فرینٹیر کور کا تبادلہ نامہ تھما دیا گیا۔ قلعہ بالا حصار پشاور حاضری کے بعد ہمیں مہمند ایجنسی میں مہمند رائفلز کا پروانہ ملا۔ غلنئی نامی جگہ پر جب مہمند رائفلز رپورٹ کی تو ہمیں سو کلومیٹر مزید آگے افغان سرحد کے قریب ”محمد گٹ“ میں بحیثیت کپتان 43ونگ کی کمان دے دی گئی۔ ہمارے زیر کمان چار کمپنیاں تھیں۔ (اجکل ونگ کی کمان لیفٹیننٹ کرنل کے پاس ہوتی ہے اور تین سے چار افسران زیر کمان ہوتے ہیں)۔ ہمارا دفتر اور قیام گاہ ایک خوبصورت ریسٹ ہاو¿س میں تھی جہاں ہم نے چوبیس انچ کا رنگین ٹیلیویژن لگوا لیا۔ سر شام ہی ہمارے اطراف میں ڈیپلائڈ ریگولر فوج کی یونٹوں کے افسران ہماری قیام گاہ کو آباد کرنے آ دھمکتے اور یہ محفل نصف شب ٹیلیویژن پر قومی ترانہ بجنے تک آباد رہتی۔ (ان دنوں ٹی وی نشریات کی اختتام پر قومی ترانہ چلایا جاتا تھا) یہاں سے ہی میجر نیعم، کیپٹن صدیقی (تیرہ لائٹ اک اک) میجر نعیم، کیپٹن آصف (109 میڈیم رجمنٹ) میجر مراتب، کیپٹن نذر، ارشد، دستگیر (16 پنجاب) اور بہت سے دوسرے شاندار دوستوں سے انمٹ دوستی کا آغاز ہوا جو تاحال قائم ہے۔ دن اچھے ہی گزرتے رہے۔ (جاری)
فرینٹیر کور کے جوانوں کی کمان کا اپنا ہے مزا ہے۔ اسی دوران ہم نے 23 مارچ پریڈ میں فرینٹیر کور Contigent کے ساتھ حصہ لیا جسکی کمان لیفٹیننٹ کرنل اسد،11 کیولری کر رہے تھے۔ انھیں ایام میں سگریٹ نوشی سے آہستہ آہستہ بیزاری ہونے لگی۔ والد صاحب بھی کوئی خاص خوش نہ رہتے تھے۔ پریڈ کے اختتام پر ایک اتوار صدر راولپنڈی سے مطالعہ کے لئے کچھ پرانے رسائل اور کتابیں خریدیں۔ محمد گٹ واپسی پر ایک Reader'sDigest کے سرورق پر " HowToQuit Smoking" دیکھا تو پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ عمدہ اور معلوماتی تحریر تھی۔ ذیل میں چند قابل عمل نقاط تھے۔ 1?? سگرٹ نوشی خوشحالی کے بجائے دگر گوں حالات میں ترک کریں۔ اگر پہلے ہی ٹینشن ہے تو پھر کچھ اضافہ ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔ 2?? سگریٹ یکمشت ترق کریں، بتدریج چھوڑنا ممکن نہیں۔ 3??پہلے چوبیس گھنٹے بہت مشکل ہونگے۔ شاید رت جگراتا بھی کرنا پڑے۔ بس ثابت قدم رہیں۔ 4?? پہلے دو دن کے بعد طلب بتدریج کم ہو گی۔ دن میں ایک آدھ بار طلب محسوس ہو گی۔ ایک ہفتہ بعد ایک آدھ دن یاد آئے گی۔ لیکن سگریٹ نوشوں سے دور رہیں۔ دھوئیں کا قرب ہوتے ہی زیادہ شدت سے طلب محسوس ہو گی۔ 5?? چائے، مرغن اور مرچوں والے کھانے سے پرہیز کریں، یہ طلب کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ کچی سبزیات، سلاد اور پھل کھانے پر زور دیں۔ 6?? جسمانی مشقت، ورزش اور دوڑ پر زور دیں۔ اس سے جسم میں شامل نیکوٹین کے جلد انخلائ میں مدد ملے گی اور سگریٹ کی طلب کم ہو گی۔ 7?? ایک مرتبہ چھوڑنے کی ہر گز دوبارہ ہاتھ تک نہ لگائیں ورنہ ساری محنت ضائع جائے گی۔۔ ان تجاویز کہ روشنی میں ہم نے سگریٹ ترک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ ہماری ذمہ داری کے علاقے میں افغان سرحد کے عین اوپر NawaPass پر ایک کمپنی تعینات تھی۔ جسکی کمان کے لیے افسران کی پندرہ روزہ ڈیوٹی لگتی تھی۔ ہماری اگلی باری پر ہم نے اس لعنت سے چھٹکارا پانے کا ارادہ کر لیا۔ ناوا پاس پر دوسرے یا تیسرے دن ہم نے جذبات میں فیصلہ کن گھڑی کا انتخاب کر لیا اور اپنے پندرہ روزہ گولڈ لیف کے ذخیرے کو توڑ مروڑ کر افغانستان کی جانب گہری کھائی میں اچھال دیا??۔ دن تو خیر جیسے تیسے گزر ہی گیا لیکن پہاڑ جیسی رات گزارنی ناممکن تھی۔ رات کے پچھلے پہر ہمت جواب دے گئی۔ سوچا ٹوٹی ہوئی ڈبیوں میں شاید کچھ مل ہی جائے۔ چنانچہ کمبل لپیٹ کر "ٹوٹے کی تلاش" میں زیر زمین بنکر سے جونہی سر نکالا تو قریب ہی تعینات مستعد سنتری نے اونچی پشتو میں للکارا۔ کچھ جواب نہ بن پا کر اس کو تعارف کے بعد سمجھانے کی کوشش کی کہ ہوا خوری کے لیے باہر نکلے ہیں لیکن وہ فرض شناس ساتھ ہی ہو لیا۔ چند قدم دور جا کر ٹارچ کے ذریعے کھائی میں گرائے ٹوٹوں کی تلاش کی لیکن راکھ کے ڈھیر میں شعلہ تھا نہ چنگاری۔ چنانچہ بے مراد ریڈر ڈائجسٹ کے لکھاری کو کوستے ہوئے واپس بنکر میں بنے بستر پر دراز ہو گئے ، نجانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح بیدار ہوئے تو سگریٹ کے بنا طبیعت مکدر تھی۔ البتہ عرصہ دراز بعد ناشتہ کرنے کو جی کیا۔ تیار ہو کر بنکر سے باہر آیے تو NawaPass برف کی سفید چادر اوڑھ چکا تھا۔ دوپہرکو ناوا پاس کی برف دیکھنےپشاور سے ایک ٹولی آئی جس میں چند چرب زبان حسینائیں بھی شامل تھیں۔ انھیں دیکھتے ہی نوجوان کپتان کا شوخی میں آنا تو لازم تھا۔ انھیں افغانستان، DurandLine اور سامنے بہتے دریائے کنر کی بریفننگ دیتے ہوئے یہ یاد ہی نہ رھا کہ سگریٹ ترک کیے پہلا دن ہے اور توازن میں مشکلات ہیں۔ اوسان اس وقت بحال ہوئے جب برف پر پھسلنے کے بعد زمین بوس ہوئے اور مہ لقاﺅں کے جلترنگی قہقہے ہمارے کانوں میں گونج رہے تھے۔ مشکل سے پاو¿ں پر کھڑے ہونے کے بعد مہمانوں کو بادل نخواستہ رخصت کیا اور بنکر کو چل دیئے۔ بعد از ترک سگریٹ نوشی، زندگی رواں رہی سوا? اس کے کہ بھوک زیادہ لگنے لگی اور وزن کچھ بڑھ گیا۔ کچھ دن بعد جب گھر چھٹی گئے تو اس امید کے ساتھ کہ اب اپنی شرط پوری ہونے پر والد صاحب شادی کی بات چلائیں گے، با آواز بلند اعلان کیا کہ سگریٹ چھوڑ دیئے ہیں۔ لیکن کسی کے کان ?? پے جوں تک نہ رینگی۔ اور اگلے پانچ سال آزمانے کے بعد پھر گھر والے شادی پر رضامندی ہوئے حالانکہ ہونٹ تو عرصہ سے اپنی رنگت پر واپس آ چکے تھے۔ ??