یہ تو طے ہوچکا ہے کہ ملک میں وفاقی سطح پر مخلوط حکومت ہی قائم ہوگی لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہو پایا کہ مرکز میں کن جماعتوں کے مابین اتحاد سے حکومت تشکیل پائے گی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کے آپس میں رابطے اور ملاقاتیں جاری ہیں۔ کہیں ناراضی دور کی جارہی ہے تو کہیں سابقہ اتحاد میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں جمعیت علماءاسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کردار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے سربراہ کی حیثیت میں بھی مولانا نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب جو صورتحال بن رہی ہے اس کی وجہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا اپنے سابقہ اتحادیوں سے ناراض ہیں اسی لیے وہ حکومت سازی کے سلسلے میں ان سے تعاون نہیں کرنا چاہتے۔ مولانا فضل الرحمن کا اپنے سابقہ اتحادیوں سے دور ہونا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے مفید ہوگا یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
فی الحال یہ ایک اہم پیشرفت ہے کہ پی ٹی آئی وفد نے پولیٹیکل کمیٹی کے سربراہ اسد قیصر کی قیادت میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے۔ پی ٹی آئی وفد میں اسد قیصرکے علاوہ عامر ڈوگر، عمیر نیازی اور بیرسٹر سیف شامل تھے۔ ملاقات میں حالیہ انتخابات اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ اس دوران حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی سمیت مختلف قسم کے تحفظات پر بھی تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔ پی ٹی آئی وفد نے بانی پی ٹی آئی کا پیغام مولانا فضل الرحمن تک پہنچایا اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور اپوزیشن میں ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ عامر ڈوگر نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمن کے گھر وزیراعظم کا ووٹ لینے گیا تھا۔ اس سلسلے میں شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی دونوں اطراف سے سخت بیانات دیے جاتے تھے۔ مولانا نے جو رویہ اپنایا وہ انتہائی خوش آئند تھا جس کی ہم توقع نہیں کر رہے تھے۔ دھاندلی کے حوالے سے مولانا کا اور ہمارا موقف ایک ہے۔
جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ نے مولانا فضل الرحمن سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 8 فروری کے بعد ایک سیاسی منظر نامہ نظر آ رہا ہے۔ جے یو آئی انتخابی نتائج کو مسترد کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے ایک مو¿ثر وفد نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس الیکشن کو صاف و شفاف نہیں کہا جا سکتا اور یہ دھاندلی زدہ الیکشن تھا۔ اس الیکشن سے سیاسی و معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ دونوں پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے باقی چیزیں آگے پر چھوڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر سیف نے کہا کہ بہت خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔ پی ٹی آئی 17 فروری کو ملک گیر احتجاج کرے گی۔ احتجاج میں شرکت کے لیے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو بھی دعوت دی گئی تھی لیکن اس حوالے سے اے این پی کی طرف سے معذرت کرلی گئی ہے۔
اس وقت تک نظر تو یہی آرہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں مرکز میں مخلوط حکومت قائم کریں گی اور اس سلسلے میں ان جماعتوں کے مابین بات چیت بھی جاری ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان سیاسی جماعتوں کے درمیان پاور شیئرنگ کے لیے فارمولا کن بنیادوں پر طے پاتا ہے۔ یہ دیکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ آنے والی حکومت کو بہت سے مسائل اور چیلنجز تحفے میں ملیں گے جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے بہت زیادہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی، بصورت دیگر پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کی طرح آئندہ حکومت بھی مسائل پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ پائے گی جس کا نقصان نئے اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک سیاسی جماعتوں کے مابین پاور شیئرنگ کا فارمولا طے نہیں پاسکا۔
اس مرحلے پر حکومت سازی کے لیے کوششیں کرنے والی سیاسی جماعتوں کو وہ تمام ممکنہ مسائل سامنے رکھنا ہوں گے جن کا انھیں حکومت سنبھالتے ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نئی حکومت کو وجود میں آتے ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے اور گزرتے وقت کے ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط کڑی سے کڑی ہوتی جارہی ہیں اور ان شرائط کو ماننے کا صاف سیدھا مطلب یہی ہے کہ حکومت اپنے آپ کو عوام میں غیر مقبول بنا لے گی۔ اس صورتحال سے نکلنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات میں کمی کی جائے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم کر کے معیشت کو بحال کیا جاسکے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کے لیے آمادہ نہیں ہوگی کیونکہ ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام پوری طرح اشرافیہ کے شکنجے میں ہے۔