پاکستان نے آبی بحران سے نمٹنے کے لیے1960ءکے سندھ طاس معاہدے پرسختی سے عمل درآمدکامطالبہ کیاہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم نے کہا ہے کہ پاکستان دریائے سندھ کے طاس کومحفوظ بنارہاہے جوساڑھے بائیس کروڑ سے زائدلوگوں کے لیے غذائی تحفظ کی ضمانت ہے۔ پانی کسی بھی زرعی ملک کی لائف لائن ہوتا ہے اور پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا، اگر جمہوری حکومت ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ ایسا معاہدہ کرنے سے گریز کرتی جس معاہدے کے ذریعے پاکستان کے کئی دریا بھارت کے حوالے کر دیے گئے اور بھارت سے امید رکھی گئی کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے حصے کے پانی پر تسلط قائم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد سے دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس میں ریت اڑ رہی ہے۔ شدید بارشیں ہوتی ہیں تو بھارت ان دریاو¿ں میں پانی چھوڑ دیتا ہے جو پاکستان میں سیلاب کی صورت میں تباہی مچاتا ہے اور عام دنوں میں جب پاکستان کو فصلوں کے ساتھ ساتھ انسانوں اور جانوروں کے پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بھارت ان دریاو¿ں کا پانی روک لیتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد کئی دریاو¿ں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا لیکن تین دریاو¿ں کے پانی کی کمی اس طرح دور نہیں ہو سکتی۔ اس دور میں جو غلطیاں ہو گئیں ان کو درست تو نہیں کیا جا سکتا مگر ورلڈ بینک جو اس معاہدے کا ضامن تھا اسے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ بین الاقوامی یا عالمی معاہدے ختم نہیں کیے جا سکتے مگر اپنے حق سے دستبردار ہونے کا مطلب ملک کو قحط سالی سے دو چار کرنا ہے۔ اوپر سے موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے بھارت کو معاہدے پر عمل کا پابند بنانا ضروری ہے اور اس ضمن میں عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں غذائی قلت کے خدشات سے بھی نمٹنا ہے۔ بھارت سے اپنے حصے کے پانی کی دستیابی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کی طرف بھی ترجیحی بنیاددوں پر توجہ دینا ہوگی۔