چیمپئنز ٹرافی کے افتتاح کی شاندار تیاریاں مکمل
جس انداز میں کرکٹ میلے یعنی چیمپئنز ٹرافی کے افتتاح کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس سے تو لگتا ہے جیسے کوئی بڑا شاہی ایونٹ ہو رہا ہے۔ ایسا تو بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کے دور میں ہوتا تھا۔ چراغاں، مہمانوں کا شاہانہ استقبال، موسیقی کے پروگرام، یہ سب بے شک عوام کی بھرپور توجہ پاتے ہیں، عالمی سطح پر بھی اس کا اچھا اثر ہوتا ہے۔ ویسے عوام کے مسائل کون سا اس ایونٹ کے نہ ہونے سے حل ہو جاتے کہ وہ شور کریں کہ یہ سب فضول خرچی ہے، مت کرو۔ کھیلوں کی دنیا میں ایسے ہی افتتاح پروگرام ہوتے ہیں، کیا غریب کیا امیر ملک سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش حتیٰ کہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں بھی یہ ایونٹ ہوتا تو ایسی ہی چمک دھمک شاید اس سے بھی زیادہ نظر آتی۔ وہ اپنا کلچر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمیں بہرحال اپنی اقدار کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنا کلچر پروموٹ کرنے سے ڈرتے ہیں حالانکہ ہارس اینڈ کیٹل شو میں ہم تھوڑا بہت اس کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ سندھی، بلوچ، پٹھان، پنجابی سب کو اپنے اپنے کلچر پر فخر ہے۔ یہ رنگ اس افتتاحی تقریب میں بھی نظر آئے گا۔ فوج، رینجرز اور پولیس کے جوان حفاظت کر رہے ہوں گے، ملکی و غیرملکی کھلاڑی جی جان سے کھیلیں گے۔ طیاروں کا فلائی مارچ پاسٹ اور مغلیہ انداز میں ٹرافی کی میدان میں رونمائی البتہ نئی اختراع ہے۔ رہی بات موسیقی کی تو وہ ہمیشہ سے عوام کی دل پسند رہی ہے۔ خدا کرے یہ تقریب جو بڑی سج دھج سے ہو رہی ہے، کامیاب رہے اور یہ ٹرافی بھی پاکستان ہی جیت لے۔ اس کامیابی سے ہمارے امن کے دشمنوں کو جو آگ لگے گی، اس سے بھی خدا ہمیں محفوظ و مامون رکھے اور پاکستان کو ایسی ہزاروں خوشیاں اور کامیابیاں نصیب ہوں۔
٭…٭…٭
کراچی سے روزانہ 15 ہزار ٹن کچرا اکٹھا ہوتا ہے جس سے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مرادعلی شاہ
سیاست اپنی جگہ، خدمت اپنی جگہ، اب وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی میں کچرا صاف کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ پندرہ ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے اور کہا ہے کہ اس کچرے سے پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے تو انھیں داد دینا ہوگی کہ وہ جلدازجلد اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ دنیا بھر میں کچرے سے ایندھن، تعمیراتی سامان اور نجانے کیا کیا بنایا جاتا ہے، بجلی پیدا کی جاتی ہے اور کئی ممالک کر رہے ہیں، پاکستان اور کسی چیز میں ہو نہ ہو، کچرے کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ کراچی کی طرح اگر حکومت ہر بڑے شہر میں ایسے ہی بجلی بنانے کے منصوبے شروع کرے تو بجلی کی قلت کم ہوگی اور لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں بھی کمی آئے گی۔ دنیا بھر میں طرح طرح کی نت نئی ٹیکنالوجی استعمال کرکے طرح طرح کی چیزیں ایسی فالتو اشیاء سے بنائی جاتی ہیں۔ افریقی ممالک میں کچرے کو ری سائیکل کرکے ان سے تعمیرات میں استعمال ہونے والی اینٹیں، بلاکس بنائے جاتے ہیں۔ جن سے مکان، پلازے تعمیر ہوتے ہیں۔ ہمیں فی الحال بجلی کی طلب زیادہ ہے تو وہی سہی، یہ بنے گی تو باقی کام بھی ہوتے رہیں گے۔ اس بہانے شہر بھی صاف ہوگا اور کچرا بھی سونے کے بھاؤ بکے گا۔ کچرا چننے والے خود کہیں کے زیادہ سے زیادہ کچرا پھینکیں، ہو سکتا ہے وہ زیادہ کچرا پھینکنے والے کے لیے کوئی انعامی سکیم بھی شروع کر دیں تاکہ لوگوں میں کچرا پھینکنے کا شوق پیدا ہو۔ یوں مفت میں ملک صاف ستھرا ہوگا اور فائدہ بھی ملے گا۔ سچ ہے کوئی چیز قدرت کے کارخانے میں بیکار نہیں ہوتی، بس انسان عقل سے کام لے کر سب کچھ کارآمد بنا سکتا ہے۔
٭…٭…٭
فواد چودھری نے شعیب شاہین کی ٹھکائی کر دی، گرنے سے بازو زخمی، معاف نہیں کروں گا
اس فری سٹائل مقابلے کی اجازت کس نے دی، درمیان میں آکر مقابلہ روکا کیوں نہیں گیا۔ کہاں ہیوی ویٹ فواد چودھری، کہاں لائٹ ویٹ شعیب۔ یہ تو کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ جان بوجھ کر کسی کو کنویں میں دھکیلنا اسی کو کہتے ہیں۔ اگر مقابلے میں پہل خود شعیب شاہین نے کی تو یہ ان کی حماقت کہلائے گی۔ کم از کم مخالف اپنے جثے والا ہو تو ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ کہاں فواد چودھری جیسا بھاگنے دوڑنے میں ماہر، اگر پہل فواد نے کی تو اس پر مقدمہ ہونا چاہیے مگر تازہ اطلاع کے مطابق انھوں نے کہا کہ بانی کے حکم پر صلح کرلی ہے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر شعیب شاہین نے ماڑی سی تے لڑی کیوں سی والی بات کیا پہلے نہیں سنی تھی۔ فواد کو تو بانی نے ازخود پارٹی سے یوں نکالا ہے جیسے مکھن سے بال اور دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ اس لیے ان پر احکام کی پابندی نہیں ہوتی۔ نزلہ سارا برعضو ضعیف یعنی شاہین پر ہی گرنا تھا۔ اس لڑائی میں تو پارٹی والوں کو چاہیے کہ وہ اگر مروت کے معاملے نہیں تو کم از کم اس معاملے میں اپنے ساتھی کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہوتے۔ شاید وہ فواد کے وکیل بھائی کی وجہ سے سہمے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی بات بانی کو اتنی جلدی کیا بڑی تھی صلح کی۔ معلوم تو کرلیتے غلطی کسی کی تھی۔ پہلے اسے سزا دیتے یا کم از کم بھگوڑے سے زیادہ اپنے کا ہی خیال کرتے۔ اس کی دلجوئی کرتے، بھلا فواد کون ہیں کہنے والے کہ بانی کے کہنے پر صلح کی ہے۔ یہ تو :
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
والی بات ہے۔ فواد تو پی ٹی آئی سے فارغ ہیںجبکہ شعیب شاہین حاظر سروس، جوکہہ رہے ہیں کہ وہ فواد بھگوڑے کو معاف نہیں کریں گے تو صلح کیسی!
٭…٭…٭
پاکستان بدترین موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں، پانی کا ضیاع روکا جائے، ماہرین
اب لگتا ہے جلد ہی ملک بھر میں آبی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے گی۔ اگر ایسا نہ کیا تو موسمی تبدیلیاں اور ماحولیاتی تبدیلیاں مل کر ہمارے سر سبز ملک کو بنجر، ریگستان میں تبدیل کر دیں گی۔ آبی ماہرین نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ اگر پاکستان میں پانی کا ضیاع نہ روکا گیا تو آئندہ چند سال بعد زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر جائے گی جس سے ٹیوب ویل خشک ہو جائیں گے، فصلیں تباہ ہونے سے بڑا غذائی بحران پیدا ہوگا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو پینے کا صاف پانی نہایت بے دردی سے ضائع کر رہا ہے۔ کپڑے دھونے سے لے کر گاڑیاں اور گھر بلکہ گلی تک اسی پانی سے دھوتے ہیں۔ اوپر سے اس سال دیکھ لیں 42 فیصد کم بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے موسم میں شدت آرہی ہے۔ اب مارچ تا اکتوبر 8 ماہ گرمی رہتی ہے۔ برسات اور خزاں رہے نہیں بہار کا موسم بھی سمٹ رہا ہے۔ اب تو اس کا احساس بھی صرف میلہ بہاراں سے ہوتا ہے۔ جب پیلے نارنجی گل داؤدی کے پھول لگے نظر آتے ہیں۔ برسات بھی سوکھی گزرتی ہے اور خزاں کا روایتی پت جھڑ بھی نجانے کہاں گم ہو گیا ہے۔ اب سیدھی گرمیاں رہ جاتی ہیں یا سردیاں۔ ڈیم ہم نے بنانے نہیں، دریاؤں کا پانی محفوظ کرنا ہی نہیں، اس پر صرف سیاست کرتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سو سے زائد ڈیم بنا چکے ہیں اور ہم ابھی تک کالاباغ ڈیم کا ماتم کر رہے ہیں، بنا نہیں رہے۔ پانی بے حساب سمندر برد ہو رہا ہے، اگر پینے کے قابل استعمال پانی کا ضیاع نہ روکا گیا تو پھر ہم بھی صومالیہ،سوڈان اور ایتھوپیا والوں کی طرح ہاتھ میں بوتلیں پکڑے پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے نظر آئیں گے۔ بہتر ہے اس سے پہلے ایمرجنسی لگا کر لام بندی کرکے یا مقررہ اوقات میں پانی کی فراہم کا سلسلہ شروع کیا جائے اور پانی ضائع کرنے پر بھاری جرمانہ اور سزا دی جائے۔
٭…٭…٭