خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی دو الگ الگ کارروائیوں میں 15 دہشت گرد ہلاک جبکہ فائرنگ کے شدید تبادلے میں لیفٹیننٹ محمد حسان ارشد اپنے دستوں کو شجاعت کے ساتھ فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے ایک جے سی او اور دوجوانوں سمیت شہید ہو گئے۔ دہشت گردی کی تسلسل میں کمی نہیں ہورہی۔ گزشتہ روز ہرنائی بلوچستان میں کوئلے کی کان کے قریب دھماکے میں بارہ مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک افواج کے سپوت لازوال قربانیاں دے رہے ہیں جس کا اعتراف اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی افزائش اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی کاوشوں کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں دہشت گردی، افغانستان کے کرداراور پاکستانی سکیورٹی فورسز کی اعلیٰ کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان طالبان کی مدد سے دہشت گردوں کے پاکستان میں حملے بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان میں دو درجن سے زائد دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں، یہ گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے دہشت گرد گروپوں کے اثرات مزید بڑھے ہیں۔ داعش کی افغانستان میں بڑھتی کارروائیاں اور افغان طالبان کی معاونت خطے کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے داعش خراسان کی بیرونی آپریشنز برانچ کو ناکام بناتے ہوئے اس کے اہم دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا جن میں عادل پنج شیری، ابو منذر اور کاکا یونس شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں بھی دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، بلوچستان لبریشن آرمی نے ان گروپوں کے ساتھ تزویراتی تعلقات قائم کیے ہیں جو ان کی کارروائیوں کو ایک نیا رخ دینے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ علاقائی امن کو تو بری طرح سے تباہ کرہی رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوام کا کام صرف اپنی رپورٹوں کے ذریعے دہشت گردوں کی کارروائیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا نہیں بلکہ ان کی بیخ کنی اور خاتمے کے لیے پالیسی طے کرنا اور اس پر عمل کرانا بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری بلا تاخیر ادا کرے۔