پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن پچھلے بیس پچیس برس کے دوران یہاں زراعت کے شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ایک بڑی وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہاؤسنگ کالونیاں بہت تیزی سے تعمیر کی گئیں جن کے لیے زرعی رقبوں کو استعمال میں لایا گیا۔ اس صورت میں زراعت کے لیے زمین کا گھٹ جانا ایک لازمی امر تھا۔ پھر مکانوں اور کاروں کی خرید و فروخت پر معیشت کو ملنے والے سہارے پر دی جانے والی توجہ نے حکومت کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ زراعت کا بھی حال جان لے۔ اب جب صورتحال بے قابو ہوتی نظر آرہی ہے تو کوشش کی جارہی ہے کہ زراعت پر توجہ دے کر مسائل کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔ پنجاب آبادی کے لیے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کے لوگوں کی غالب اکثریت کا ذریعہ معاش آج بھی زراعت ہے، لہٰذا پنجاب حکومت کی طرف سے اس معاملے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے جس کے لیے چولستان میں گرین پاکستان پروگرام (جی پی آئی) منصوبے کا آغازکر دیا گیا ہے۔
پنجاب میں زراعت کو جدت سے ہمکنار کرنے کے اس انقلابی پروگرام کے تحت کسانوں کو تمام زرعی سہولیات ایک چھت تلے فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے دوران گرین مال اینڈ سروس کمپنی، سمارٹ ایگری فارم، زرعی تحقیق اور سہولت مرکز کا افتتاح بھی کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں نیشنل فوڈ سکیورٹی و تحقیق کے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین اور وفاقی وزیر آبی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک بھی شریک تھے۔ تقریب میں بتایا گیاکہ گرین ایگری مال اینڈ سروسز سروس کمپنی کسانوں کو ان کے گھر کے دروازے پر معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی قیمت پر فراہم کرے گی۔ کسانوں کو ڈرونز سمیت زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دستیاب ہو گی۔ ایک چھت تلے، ایک کمپنی کے ذریعے کسانوں کو زراعت سے متعلق تمام سہولت میسر ہوں گی۔
منصوبے کے تحت پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل جدید زرعی فارم کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ فارم جدید زراعت کی مثال بنے گا، جدید زرعی طریقے اور آبپاشی کا جدید نظام استعمال کیا جائے گا۔ پانی کے کم استعمال اور لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل ہو گی۔ زرعی تحقیق اور سہولت مرکز میں زراعت کے شعبے سے متعلق تمام اشیاء اور سہولیات دستیاب ہوں گی۔ زمین کی جانچ سمیت تحقیق سے متعلق لیبارٹری کی تمام خدمات بھی فراہم ہوں گی۔ یہ ادارہ زرعی تعلیم اور تحقیق کرنے والے ملک بھر کے تمام اداروں کے ساتھ رابطے میں ہو گا۔ مریم نواز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چولستان اور پنجاب میں جدید زراعت کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ان منصوبوں کا آغاز پنجاب کے کسانوں کی ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ زراعت کی ترقی کسان کی ترقی اور پاکستان کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ گرین پاکستان جدید زراعت کے فروغ کا انقلاب ہے۔
اس موقع پر جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہاکہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ جدید زراعت میں صوبہ پنجاب اور یہاں کے کسانوں کاقائدانہ کردار قابل تحسین ہے۔ گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت مختصر وقت میں یہ کامیابیاں حوصلہ افزااور ترقی کی نوید ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ فوج ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں بھرپور حمایت جاری رکھے گی۔ آرمی چیف نے مختصر وقت میں پنجاب حکومت کے گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت کاوشوں اور حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہا۔
دریں اثناء، صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چولستان کا علاقہ جو صحرا تھا،اب سیراب ہو گا اور وہاں پر کسانوں کو تمام زرعی اشیاء کی سرکاری ریٹ پر دستیابی کے ساتھ ہائی ٹیک مشینری رینٹل بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔ پنجاب کی ہر تحصیل میں رینٹل سروس کا آغاز کیا جائے گا۔ جی پی آئی وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کی عکاسی کرتا ہے جو زرعی شعبے کو بدل کر رکھ دے گا۔ سید عاشق حسین کرمانی کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبے میں کسان کارڈ،گرین ٹریکٹر پروگرام، زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن اور سموگ کی روک تھام کے لیے سپرسیڈرز کی فراہمی جیسے متعدد منصوبے شامل ہیں۔ صوبائی وزیر نے کہاکہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زراعت میں جنیٹک و موسمی اثرات سے محفوظ سیڈ، بہتر آبپاشی کے نظام اور جدید زرعی مشینری کے استعمال کو یقینی بنائیں جس سے ہماری فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو گا اور نقصانات کم ہوں گے۔
جی پی آئی کے نام سے جس منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے وہ پنجاب حکومت کا واقعی لائق تحسین اقدام ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں سے مشاورت کے لیے تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں قائم کرے اور ان کے مسائل کو نہ صرف سنے بلکہ انھیں حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کرے۔ مزید یہ کہ پنجاب میں پانی کی کمی سے آئندہ برسوں میں جو مسائل پیدا ہونے کا امکان دکھائی دے رہا ہے اس پر بھی فوری توجہ دی جائے اور ماہرین کی مدد سے اس مسئلے کے حل کے لیے ابھی سے اقدامات شروع کیے جائیں تاکہ اس مسئلے پر بروقت قابو پایا جاسکے۔