یونان میں بدترین مالی بحران کے باعث ”پولیس کرائے پر دستیاب“ کے بورڈ آویزاں ہو گئے۔
55 ہزار اہلکاروں پر مشتمل محکمہ پولیس نے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے شہریوں کو کرائے پر حفاظت کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 30 یورو فی گھنٹہ فی پولیس اہلکار حاصل کیا جا سکے گا۔ پولیس کی گاڑی 40 یورو جبکہ موٹر سائیکل 20 یورو فی گھنٹہ اضافی رقم دینا پڑے گی۔ بڑی تقریبات کیلئے پولیس کی گشتی کشتیاں 200 یورو جبکہ ہیلی کاپٹر 1500 یورو فی گھنٹہ پر دستیاب ہو گا۔
پاکستان میں ”کرائے کے قاتل“ ملتے ہیں، بالفرض اگر وزیر داخلہ رحمن ملک نے کبھی پولیس کرائے پر دینے کا اعلان کیا تو یقینی طور پر ہماری پولیس ”کرائے کے قاتل“ سے زیادہ معاوضہ لیکر ان سے مل جائے گی، یہ روزمرہ کا کام ہے ڈاکوﺅں کے ساتھ پولیس ملی ہوتی ہے۔ 15 پر کال کرنے کے باوجود دو دو گھنٹے دیر سے آنا ان کا معمول بن چکا ہے۔ ایک چور کو پولیس اہلکار دورانِ تفتیش کہہ رہا تھا یار تُو نے جس جس گھر چوری کی انکے گھروں میں تو آج بھی لالٹین جل رہی ہے لیکن تیرے گھر میں کھانے کیلئے کچھ بھی نہیں، اب توبہ کر لے ورنہ تیری بخشش نہیں ہو گی۔ طعنوں سے جل کر چور نے کہا، یار اگر تم پولیس والے بخشے گئے تو میں تم سے پہلے جنت میں جاﺅں گا کیونکہ مجھے اس راستے پر لانے والے یہی لوگ ہیں۔
پولیس کے بااثر افسران نے بھی مختلف روپوں میں اپنے اپنے چور اور ڈکیت رکھے ہوتے ہیں جو چوری کر کے مدعی کے تھانے میں آنے سے پہلے تھانے میں گھس کر پناہ لیتے ہیں، بس پولیس پھر بے گناہ شہریوں کو پکڑ کر انہیں مرغا بناتی ہے جس بنا پر نئے چور میدان میں آ جاتے ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں 26 لاکھ روپے لوٹے گئے، 5 گاڑیاں اور 12 موٹر سائیکل چھین لئے گئے لیکن سی سی پی او کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی۔ ہماری پولیس کی تنخواہیں تو اس قدر زیادہ ہیں کہ یونان کا پورا ملک اس سے چل سکتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود ہر موقع پر ”کتیا“ چوروں سے مل جاتی ہے اور عوام لٹتے رہتے ہیں۔ رانا ثنااللہ صوبائی وزیر داخلہ ہیں لیکن انکا کام بھی مونچھوں کو تاﺅ دینے کے علاوہ کوئی نہیں۔ آج تک لاہور کے کسی تھانے میں جا کر انہوں نے مونچھوں کو تاﺅ نہیں دیا بس پہلے راجہ ریاض کے پیچھے پڑے تھے آجکل علامہ طاہر القادری انہیں سونے نہیں دیتا۔
جناب کچھ تو خیال کریں اگر پولیس والے بندے کے پُتر نہیں بنتے تو پھر اس محکمے کو ختم کر دیں، یقین جانئے آدھے سے زیادہ جرائم اور چوریاں خود بخود ختم ہو جائیں۔ پہلے ہر تھانے پر اتحاد، ایمان، تنظیم کا بورڈ آویزاں ہوتا تھا لیکن اب ہر پُلسیے کے چہرے پر یہ لکھا ہوا ہے ....
حاکم ہے رشوت ستاں فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاﺅں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا
٭....٭....٭....٭
موجودہ حالات میں جنرل کیانی کی جگہ ہوتا تو ملک میں تبدیلی آ چکی ہوتی : پرویز مشرف
”اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی“
آپ نے جو گل کھلائے ہیں قوم آج تک انہیں کی خوشبو سے معطر ہے۔ آپکی تبدیلی تو جنسی تبدیلی تھی، لیکن عوام تو صرف ”اصلاحی تبدیلی“ کے خواہاں ہیں چاہے وہ ”ڈانگ مارچ“ کے ذریعے آئے یا ”مفاد مارچ“ کے بعد۔ آپکی گیڈر بھبکیاں سُن کر دماغ کو کرنٹ لگتا ہے کہ قوم کی بیٹی کو بیچنے، عوام کو غیروں کے سامنے گروی رکھنے اور بستیاں اُجاڑنے والے پھر دستک دے رہے ہیں۔ بے چینی، بدعملی اور بدامنی کی ہَوائیں صرصرا رہی ہیں اور ”شہادت بُلٹ پروف کنٹینر“ شاہراہ دستور پر کھڑا ہے، پرویز مشرف والے 7 نکات پر عمل کروانا انکا مشن ہے، ملک کے حالات اتنے خراب ہونے کے باوجود جنرل کیانی کا اپنے حلف کی پاسداری ‘ اپنے آپ کو آئین میں تعین رول میں محدود رکھنا خوش آئند ہے۔
جس طرح بلی کو سوتے ہوئے بھی چھچھڑوں کے خواب آتے ہیں، آجکل پرویز مشرف کو بھی اقتدار کے ایسے ہی خواب آ رہے ہیں۔ بلیوں کو ملتا ہے نہ ہی پرویز مشرف کو کچھ ملے گا چاہے یہ کینیڈین شہری کے علاوہ کسی اور کی کمر پر تھپکی کیوں نہ مارے۔
٭....٭....٭....٭
وزیراعظم کو فیصلے کی اطلاع کافی پیتے ہوئے ملی۔
راجہ صاحب بہادر کا خبر سُن کر منہ جل گیا ہو گا، ویسے جس دن سے وہ وزیراعظم بنے ہیں انکا منہ ببر شیر جیسا بارعب ہو گیا ہے کیونکہ اقتدار کا نشہ جو منہ کو لگ گیا ہے۔ جس طرح کرسی کرسی ہوتی ہے چاہے وہ اقتدار کی ہو یا بیٹھک کی، اسی بنا پر اسلم رئیسانی کے بقول وہ آج بھی کرسی پر بیٹھا ہے، ایسے ہی نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے وہ اقتدار کا ہو یا کسی اور چیز کا۔
راجہ کی بارات ایوان وزیراعظم آئے ابھی تو سال بھی نہیں گزرا کہ اڈیالہ جیل کا بلاوا آ گیا ہے۔ وزیراعظم نے 18 جنوری کو بیٹے کی شادی کا بھی اعلان کر رکھا ہے اب اس میں بھی بھنگ پڑ گئی ہے راجہ پرویز رینٹل پاور کی چسکی نہ لگاتے تو آج شکوہ کے طور پر یوں نہ کہتے .... ع
”اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن“
جناب چار دن تو لذت لے لی، اب ذرا قمر الزمان کائرہ کو موقع دیں انہوں نے بھی وزیراعظم کی ٹکٹ کٹوا رکھی ہے، لائن میں کھڑے ہیں کہ شاید انکی باری آ جائے، ویسے اس وقت نگران سیٹ اپ کا اعلان کر دیں تو سب کیلئے بہتر ہو گا کیونکہ سونامی خان نے بھی لنگوٹ کس لیا ہے۔
جمعرات ،4 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘17 جنوری2013 ئ
Jan 17, 2013