”شیخ الاسلام“ کا ”امپورٹڈ“ اور ”پروپیگنڈہ“ مارچ

Jan 17, 2013

سید روح الامین

 ”شیخ الاسلام“ نے خود کو حُسینیت کا ”پیروکار“ قرار دے کر وطن عزیز میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
 پہلے تو ہم ”شیخ الاسلام“ سے معذرت کیساتھ پوچھنا چاہیں گے کہ جناب یورپ کی کون سی ”دانشگاہ“ سے جدید ڈگری لے کر آئے ہیں جس کی بناءپر بغیر سوچے سمجھے وطن عزیز میں مسلمانوں کو یزید کے خطابات سے نواز رہے ہیں۔ جناب خود کس حد تک حُسینیت کے ”پیروکار“ ہیں۔ چالیس لاکھ افراد ”امپورٹڈ مارچ“ میں لے جانے کے دعویدار چند ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ سیدنا امام حسینؓ صرف اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا تشریف لےکر گئے تھے وہ حق کے انقلاب کے داعی تھے کسی دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور اپنے بھائی بھتیجے بیٹے سب کچھ وہاں قربان کر کے اپنے نانا کی شریعت کو بچا لیا۔ سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ پانی بھی بند کر دیا گیا، اِدھر ان کی سنت پر عمل کے ”دعویدار“ لوگوں کے محتاج کیوں ہیں؟ کیا مساوات محمدی سے شیخ الاسلام نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ خود کو اور اپنی فیملی کو ایک مخصوص بُلٹ پروف گاڑی میں ”محفوظ“ کر لیا جس میں کھانے پینے کی سہولتوں کے علاوہ بستر وغیرہ کی آسائشیں بھی ہیں اور معصوم، سادہ لوح عوام کو بسوں، ویگنوں کی چھتوں کے حوالے کر دیا۔ کیا ”شیخ الاسلام“ کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان عزیز ہے عوام الناس کی نہیں۔
 الیکشن تو ویسے بھی ہونے والے ہیں جو اصلاحات یہ چاہتے ہیں ان کیلئے ایک آئینی راستہ یہ بھی تھا کہ موصوف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرتے کہ الیکشن سے پہلے یہ اصلاحات کرائی جائیں۔ ”تخت یزید“ الٹا دینگے۔ یہ سب کیا ہے؟ موصوف کیسا ”انقلاب“ چاہ رہے ہیں؟ ”مبلغ اسلام“ نے الیکشن میں اصلاحات کی بجائے ”پاکستان میں نفاذِ اسلام“ کا نعرہ کیوں نہیں لگایا۔ شاید جناب کو ڈر ہے کہ نفاذ اسلام کے نعرے سے یورپ میں دوباہ داخلہ ہی نہ بند ہو جائے۔ انقلاب کیلئے افراد کی نہیں ایمانی قوت اور جذبے کی ضرورت ہے آپ کی حیات مقدسہ اور میدان کربلا اس حقیقت کے گواہ ہیں ۔ افراد کا محتاج تو ” یزیدی لشکر“ تھا۔ مگر وہ ”اکثریت“ کے باوجود بھی ہار گیا اور صرف 72 تن جو کہ ایمانی جذبے اور عشق رسول سے سرشار تھے دنیائے عالم میں ایک نئی تاریخ رقم کر گئے۔ اور جس ”یزیدیت“ کا ”شیخ الاسلام“ ذکر کرتے ہیں اس کا باقاعدہ دو سال تک موصوف خود حصہ رہ چکے ہیں۔ اور آج بھی جناب ”شیخ الاسلام“ جس حکومت کو ”یزیدی لشکر“ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ”شیخ الاسلام“ کا ایک جسم ایم کیو ایم آج بھی اسی ”لشکر“ کا حصہ ہے۔ چودھری صاحبان بار بار جو ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے حاضر ہوئے وہ بھی اسی ” لشکر“ میں شامل ہیں ۔
اصل میں یہ سارا ڈراما جناب نوازشریف صاحب کے خلاف رچایا گیا ہے۔ ”تخت لاہور“ والے حالانکہ ”شیخ الاسلام“ کے محسن ہیں۔ جناب بخوبی جانتے ہیں کہ جو اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے رب کا بھی ادا نہیں کرسکتا۔مگر اب یورپین ڈالرز نے ”شیخ الاسلام“ کو سب کچھ بھُلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ مہمان کی عزت بھی دلوںسے بعید ہے تو اللہ جانتا ہے مگر ایک ”عالم دین“ نے ملک ریاض کو ذلیل کر کے کیوں واپس بھیج دیا۔ ہمارے خیال میں تو رحمان ملک اور چودھری صاحبان کا آنا، مذاکرات کرنا یہ سب ڈرامہ ہے ۔نشانہ صرف (ن) لیگ ہے۔ باقی سب ”شیخ الاسلام“ کے اتحادی ہیں یہ لانگ مارچ نہیں بلکہ ”امپورٹڈ مارچ“ اور ”پروپیگنڈہ مارچ“ ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ موجودہ حکومت جمہوری و آئینی ہے۔ اگر یہ جمہوری عمل تسلسل سے جاری رہا تو اس میں خود بخود نکھار اور شفافیت آتی جائے گی۔ عدلیہ آزاد ہے ابھی کل عدالت عظمیٰ نے رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے تو بہتر یہی ہے کہ ”مبلغ اسلام“ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سادہ اور معصوم عوام کو مزید کسی امتحان میں نہ ڈالیں۔ مساوات اور عدل و انصاف کا ساری عمر اپنی تقریروں میں پرچار کرنے والے ”مبلغ اسلام“ کا طرز عمل یہ ہے کہ خود کو پرتعیش بلٹ پروف ٹرک میں سوار کر لیا۔ فریج، بستر سمیت زادِراہ لے لیا۔ دوسری طرف خواتین، بچوں، بوڑھوں کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ موصوف بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے آقاﷺ نے سب کے ساتھ مل کر خندق کھودی جب ایک صحابی نے بتایا کہ یا رسول اللہ بھوک کی اتنی شدت تھی کہ پیٹ پر پتھر باندھ لیا تو ہمارے آقا خاتم النبین نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو آپ نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ تاریخ اسلام کو ”شیخ الاسلام“ بہتر جانتے ہیں کہ خلیفہ اور غلام باری باری سواری کرتے ہیں۔ ”شیخ الاسلام“ بار بار قرآن پاک سمیت دیگر قسمیں کھانا کیوں ضروری محسوس کر رہے ہیں حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ حدیث شریف ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ بار بار قسم کھائے۔ ”موصوف“ غریبوں کے نام پر اپنی ”دکانداری“ نہ چمکائیں۔ سیاستدانوں اور ”شیخ الاسلام“ کا کردار ایک جیسا ہی ہے۔ سیاستدان بھی لوٹتے ہیں اور ”جناب“ بھی اسلام کے نام پر لوٹ ہی رہے ہیں۔ ایک عام مولوی اور اربوں کا سرمایہ یہ سفر کیسے طے ہوا؟ جناب کی فیکٹریاں تھیں یا بیرون ممالک میں کوئی کاروبار؟ یہ سب اسلام کے نام پر ”تقاریر“ کا ہی ثمر ہے۔ خود کو ”حسینی لشکر“ کہنے والے نے تین روز سے معصوم عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
آخر میں قارئین اگر ”جناب“ کے اس ”امپورٹڈ“ اور ”پروپیگنڈہ“ مارچ کا بنظر غائر جائزہ لیں تو وہ محسوس کریں گے کہ علامہ طاہرالقادری نے اپنے وطن یعنی ”مغرب“ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ وہ صرف ان کے ”ایجنٹ“ کے طور پر وطن عزیز پاکستان کو بدنام کرنے اور غیر مستحکم کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ نہ ہی موصوف نے اسلام کے حق میں کوئی بات کی۔ ہاں معصوم، سادہ لوح عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے کربلا والوں کے واسطے ضرور دئیے ہیں۔ پاکستانی عوام ان کے اس پروپیگنڈہ مارچ کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

مزیدخبریں