پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے کیونکہ نیوورلڈ آرڈر کا مرکزی محاذ پاکستان کی سرزمین ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنا ہمنوا بنائے رکھنے کیلئے لچکدار اور گہری منصوبہ بندی کر رکھی ہے، جس کے تحت امریکہ نے پاکستان کیلئے دو آتشہ انتظام کر رکھا ہے۔ امریکہ پاکستان میں بیک وقت بنگلہ دیشی عدالتی اور ترکی کے کمال اتاترک ماڈل کے نفاذ کیلئے کام کر رہا ہے جبکہ پاکستان نظریاتی اسلامی ریاست ہے، جہاں قرآن و سنت کے نفاذ کیلئے تحریک پاکستان کے علاوہ پرجوش عوامی تحریک ”نظام مصطفی“ چلی نیز افغانستان میں روسی یلغار کے خلاف عظیم تر مزاحمتی گوریلا جہاد کا آغاز ہوا جبکہ جداگانہ قومیتی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنا۔ قائداعظم نے بار بارکہا کہ مسلمان اور ہندو جدا گانہ قومیں ہیں۔ آج پاکستان میں امریکی دباﺅ اور آزادی میڈیا کے ذریعے شکست خوردہ کانگریسی متحدہ قومیت کا پرچار کیا جا رہا ہے اور پاکستان کی عظیم مذاحمتی جہادی تحریک کو امریکی کارستانی اور غیر مفاہمتی اہل ایمان افراد کو دہشت گرد کہہ کر پاک فوج کے ذریعے مارا جا رہا ہے۔
امریکہ نے 2014 تک افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کرنا جبکہ امریکہ اپنے مستقبل کے مفادات یعنی باقیماندہ نیٹو افواج، عملہ اور سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتا ہے جس کیلئے یا امریکہ کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کی گردن پر سوار رہے اور پاکستان کو امریکہ نواز بنائے رکھنے کیلئے امریکہ نے آخری حد تک جاتا ہے۔ امریکہ کو پاکستانی عوام، آئین، پارلیمان، جمہوریت اور آمریت سے لگاﺅ نہیں اسے فقط اور فقط امریکہ نواز سرکار چاہئے جس کے جھنڈے تلے تمام سٹیک ہولڈرز یعنی فوج اور سیاستدانوں کی مشترکہ سرکار بن جائے۔ امریکہ کا پاک فوجی ہیرو جنرل پرویز مشرف اور سیاسی ہیرو بھٹو خاندان اور زرداری ہےں جبکہ امریکہ نے ریمنڈ کی رہائی کے وقت غیر معمولی اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کا آپریشنل نیٹ ورک مکمل ہے۔ اب امریکہ پاکستان میں مرضی کی کارروائی اور بندوبست کیلئے فوج اور آئی ایس آئی کا محتاج نہیں۔ امریکہ کی حکمت عملی میں دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ آج بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی اور مذہبی اکابرین کی معقول تعداد دوہری شہریت کی حامل ہے۔ امریکہ نے ریمنڈ کی رہائی کیلئے دھمکی دی تھی کہ اگر ریمنڈ رہا نہ ہوا تو امریکہ پاکستان کے مقتدر طبقے کی مغرب میں رہنے والی اولاد کا محافظ نہیں ہوگا۔ ان کی بنکوں میں جمع دولت ضبط کر لی جائے گی اور پاکستانی سفارتکاروں میں شامل آئی ایس آئی کے افسروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ فی الحقیقت امریکہ اپنے مفاد کیلئے پاکستان میں فساد بپا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ نے بلوچستان میں عظیم نیشنلسٹ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت سے خونیں دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ صوبہ سرحد یعنی خیبر پختونخواہ میں متحدہ بھارت کے حامی نیشنلسٹ علماءاور سیاستکار، سرحدی گاندھی کی صورت میں موجود ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے کے متحدہ بھارت کے ایجنڈے پر از سر نو سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم بھی صوبائی اور لسانی سیاست سے باز نہیں آتیں بلکہ ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلا وطن لیڈر الطاف حسین نے اکثر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں شریف برادران ہیں۔ جو نیشنلزم اور جمہوریت کے امین ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی ، فلاحی اور عوامی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شریف برادران امریکہ مخالف نہیں مگر امریکہ کی بیجا مداخلت کے حامی نہیں بلکہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں امریکہ نواز حکومت نہیں جبکہ پاکستان کی سیاسی طاقت کا مرکز پنجاب ہے لہذا پنجاب کو غیر شریف کرنا اور نسلی بنیاد پر تقسیم کرنا امریکہ کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ امریکہ کو مذکورہ امریکی مفادات اور اہداف کیلئے فوج میں دوسرے پرویز مشرف اور سیاست میں زرداری درکار ہےں اور اس امر کے حصول میں امریکہ ناکام ہے۔ درایں صورت امریکہ کو پاکستان میں قومی اور ٹیکنوکریٹ حکومت درکار تھی جو مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے باہم اختلافات کے باعث نہ بن سکی۔ یہ اختلافات پالیسی یا اہداف کے نہیں، حکمت عملی کے تھے۔ اب اس کا وقت گزر گیا۔ اب امریکہ کے پاس واحد آپشن الیکشن ہے۔ اگر الیکشن معمول کے مطابق ہوئے تو شریف برادران کا عوامی ووٹ بنک متاثر کرنا مشکل تھا اور کسی حد تک تاحال ہے۔ موجودہ کرپٹ حکمرانوں کا دوبارہ منتخب ہونا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ اگر زرداری، بڑے بھٹو کی طرح الیکشن میں بھاری دھاندلی کرتے تو عوامی احتجاج بے قابو ہونے کا امکان تھا۔ یاد رہے کہ ضیاءالحق امریکی اشیرباد سے نہیں آئے تھے۔
قادری مارچ14 جنوری 2013 امریکی مفاد کا مظہر ہے۔ جو نام نہاد تبدیلی کی خواہاں سیاستکاروں کو متحد کرنے، موجودہ حکمرانوں کو مظلوم اور محفوظ بنا کر اگلے الیکشن کیلئے متحدہ محاذ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے جملہ مقتدر طبقے زرداری سے نالاں تھے لہذا زرداری دوبئی یاترا پر جا سکتے ہیں۔ قادری بظاہر جمہوریت، پارلیمان اور عدالت کی بالادستی کی بحالی کیلئے آئے ہیں۔ ان کا 7 نکاتی مطالبہ بظاہر غیر جانبدار نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمشن کا قیام ہے۔ جس کیلئے نام نہاد عوامی بلیک میلنگ کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ جس سے عوامی جذبات کا کتھارسس ہو گیا لہذا اگلا الیکشن نسبتاً پرسکون ہو گا۔ قادری مارچ سولو فلائٹ نہیں۔ یہ غیر اعلا نیہ عمران خان، الطاف حسین، زرداری یعنی پی پی پی کی مشترکہ کاوش کے علاوہ اقلیتوں کا اجتماع ہے۔ پاکستان میں الیکشن عراق، افغانستان، فلسطین اور لبنان کی طرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جملہ اخراجات بھی یو این او برداشت کرتی ہے۔ قادری مارچ کے بغیر الیکشن میں شریف برادران کو پنجاب اور وفاق میں حکومت بنانے سے روکنا مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن تھا۔ قادری مارچ نے پی اے ٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، پی پی پی وغیرہ کا متحدہ محاذ بنا دیا ہے جو اگلے الیکشن میں متحد ہو کر ن لیگ کا مقابلہ کریں گے اور نگران سیٹ اپ الیکشن کمشن بھی مذکورہ متحدہ محاذ کا پسندیدہ ہو گا۔ قادری مارچ نظام بدلو سے شروع ہوا تھا۔ اس نظام بدلو پالیسی یا نعرے میںامریکہ نواز پالیسی بدلنے کا ہدف شامل نہیں تھا اور تاحال نہیں ہے۔ لہذا قادری مارچ کی کامیابی چہروں کی تبدیلی ہو گی۔ پالیسی کی تبدیلی نہیں ،پالیسی کی تبدیلی کیلئے مزاحمتی جمہوری ٹیم درکار ہے جو قادری صاحب کے بس کی بات نہیں بلکہ وہ پاکستان کی واحد جمہوری مزاحمتی پارٹی ن لیگ کے مخالف دھڑے میں ہیں۔ قادری مارچ کی نام نہاد کامیابی کے باوجود الیکشن کے بعد مخلوط بنے گی۔ جس کی میں امریکی عملداری جاری رہے گی جبکہ شریف برادران کی مضبوط صوبائی اور پارلیمانی پوزیشن امریکہ کو ”ناقابل قبول“ ہے کیونکہ شریف برادران دباﺅ، دھمکی اور لالچ سے رام نہیں ہوتے یہ نہ صرف جوہری دھماکہ کرتے ہیں بلکہ ریمنڈ کو گرفتار کر کے پنجاب میں رکھتے ہیں۔ شریف برادران پاکستان میں واحد غیر مفاہمتی بلکہ کسی حد تک مزاحمتی جمہوری آواز ہے۔
امریکی مفاد اور قادری مارچ
Jan 17, 2013