اسلام آباد (محمد نواز رضا / وقائع نگار خصوصی + ایجنسیاں) طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ ہم اس وقت تک اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے جب تک انقلاب برپا نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے حکمرانوں کو ان کا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کرنے کے لئے مزید مہلت دے دی اور کہا کہ ان کے پاس ایک یا دو دن بچے ہیں ورنہ قوم انہیں نکال باہر کرے گی، ہمارا مطالبہ وہی ہے جو ہم نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر کیا تھا، ہمارے بنیادی مطالبات وہی 3 ہیں جو پہلے دن سے کہتے آ رہے ہیں، مطالبات وہی تین ہیں اور چوتھا مطالبہ ان تین مطالبات کی عملداری کے لئے میکنزم کا ہے، ہمارا چارٹر آف ڈیمانڈ سات مطالبات پر مشتمل نہیں ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دے دی اور کہا کہ اس ملک میں صحیح لوگ بھی ہیں جو مخلصانہ طور پر ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ عمران خان بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ یہ پوری قوم کا مارچ ہے، 18 کروڑ عوام کا مارچ ہے، میں چاہتا ہوں تبدیلی کے خواہاں لوگ مارچ میں شامل ہو جائیں، قانون شکن قانون ساز نہیں ہو سکتے، قانون توڑنے والوں کی جگہ جیل ہے اسمبلی نہیں۔ انہوں نے دھرنے کے شرکا سے کہا کہ ”مجھے اجازت دیں میں کیبن سے باہر آ کر خطاب کروں میں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں جو دہشت گردوں سے ڈروں گا، کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں کے اندر داخل ہو، انہوں نے یہ بات بدھ کے روز پارلیمنٹ ہا¶س کے سامنے ڈی چوک کے سامنے لانگ مارچ کے شرکا سے مسلسل ساڑھے تین گھنٹے خطاب میں کہی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ عمران خان اور میرا مطالبہ ایک جیسا ہے وہ میرے ساتھ کھڑے ہو جائیں تاکہ ہم مل کر گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دے سکیں۔ انہوں نے دیگر جماعتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر تبدیلی کے عمل میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی لانگ مارچ کے ذریعے آئے گی، فوج اور عدلیہ نے 5 سال حکومت کے کام میں مداخلت نہیں کی، حکومت کو 5 سال ملے لیکن حکومت نے عوام کو کچھ نہیں دیا، ہم نہیں چاہتے کہ قانون توڑنے والے قانون سازی کریں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا۔ میڈیا نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور میرے خطاب کو ایک ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اس کی کڑیاں ملائی جا رہی ہیں جبکہ مجھے اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ رینٹل پاور کیس کی سماعت کی جا رہی ہے، جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو، یہ شرمناک ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ وفاقی وزیر قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرائیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا، یہ کیسی قیادت ہے؟ 60 سال ملک کا خون چوسنے والے قیادت کہلانے کے حقدار نہیں، جب حکمران عدالت کے حکم کو جھٹلانے پر آ جائیں تو عوام مارچ نہ کریں تو کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں انقلاب نہ آیا تو دنیا کی کوئی طاقت ان حکمرانوں کو نہیں روک سکتی۔ ہم نہےں چاہتے ٹیکس چور اس پارلیمنٹ کے ممبر ہوں، آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق اچھے کردار کا شخص اور جس کی شہرت قانون شکنی کی نہ ہو اور وہ دانا ہو، قابل ہو، نیک سیرت ہو، عیاش اور کرپٹ نہ ہو، دیانتدار اور امانتدار ہو جب تک یہ شرائط کسی میں پوری نہ ہوں وہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کا اہل ہی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ کیا حکومت عوام کو روزگار، بجلی، پانی و گیس دے سکتی ہے کیا کسی غریب آدمی کو بنک 5 یا 10 لاکھ روپے قرضہ دے سکتا ہے، جو بات غریبوں کے لئے نہیں وہ امیروں کے لئے بھی نہیں ہو سکتی، جمہوریت میں برابری کا درجہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میری بات جمہوریت کے خلاف ہے تو بھی عوام کو سننے دیا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کریں لیکن ٹی وی کیبل بند نہ کیا جائے۔ ہم اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا موجودہ حکمران ملکی قیادت سنبھالنے کے اہل نہیں، حکمرانوں کا رویہ آئین، قانون اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے، جب تک حکمرانوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ملک میں بہتری نہیں ہو گی۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ لانگ مارچ کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے سوال کیا کہ کیا یہ طرز حکمرانی ہے؟ وزیراعظم کی گرفتاری کے فیصلے کے بعد جو ردعمل آیا وہ بدقسمتی ہے، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو جھٹلائے تو عوام مارچ نہ کریں تو کیا کریں۔ طاہر القادری نے مطالبہ کےا عوامی نمائندگی اےکٹ، آئےن پاکستان کے نفاذ اور انتخابی اصلاحات سے متعلق سپرےم کورٹ کے فےصلے پر عمل درآمد کر کے نوے دن کے اندر صاف و شفاف انتخابات کرائے جائےں۔ اس سے قبل الےکشن کمشن تحلےل کر کے غےر سےاسی بنےادوں پر اس کی تشکےل نو کی جائے۔ طاہر القادری نے کہا کہ میرا پہلا مطالبہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق انتخابی اصلاحات کی جائیں، دوسرا الیکشن کمشن کو تحلیل کر کے اس کی تشکیل نو کی جائے، نگران حکومت دو جماعتوں کے مک مکا سے نہیں بننا چاہئے اور چوتھا مطالبہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔ انہوں نے کہا فخر الدین جی ابراہیم دیانتدار شخص ہیں مگر بے بس ہیں، ان میں جسمانی صلاحیت نہیں، وہ بوڑھے ہیں، الیکشن کمشن کے باقی چار ارکان سیاسی ہیں جو ہر صوبے سے سیاسی جماعتوں نے بھیجے ہیں۔ فخر الدین جی ابراہیم جیسا بوڑھا دیانتدار شخص شیشے کی الماری میں بٹھا دیا گیا ہے۔ طاہر القادری نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر ازخود ایک ٹرانسفر بھی نہیں کر سکتا۔ چار ممبران دراصل مک مکا ممبرز ہیں پنجاب کا ممبر نوازشریف کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتا موجودہ الیکشن کمشن سراسر سیاسی ہے، فخر الدین جی ابراہیم بہتر ہے استعفیٰ دے دیں۔ میں رحمن ملک کی ایف آئی آر کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔علاوہ ازیں طاہر القادری نے ڈی چوک میں دوبارہ مظاہرین سے خطاب میں کہا ہے کہ ہمارا مارچ انقلابی و جمہوری جدوجہد آخری مرحلے میں داخل ہو گیا۔ اب گھروں میں بیٹھے کا وقت نہیں۔ ہمارے خلاف 2 سے 3 دن کیلئے 3 ارب روپے کا فنڈ بنا لیا گیا ہے۔ ہماری جدوجہد آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ شرکاءاستقامت کے ساتھ 2 دن اور گزار لیں۔ جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی جنگ ہم جیت چکے ہیں۔ لوگ جان چکے ہیں کہ یہ جنگ بدعنوانی کے خلاف ہے۔ آئندہ 2 روز میں ڈیڑھ ارب روپے میرے خلاف خرچ کئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی لوٹی ہوئی رقم واپس کرنا ہو گی۔ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بدھ کو لانگ مارچ سے خطاب کے دوران وزیر داخلہ رحمن ملک پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ کی پہلی رات انہوں نے مجھے اغواءکرانے کی کوشش کی میرے کنٹینر کی ڈرائیونگ سیٹ پر قبضہ کرلیا گیا تھا ‘ مجھے کہیں لے جانے کی کوشش کی گئی تھی‘ ٹرک کا گیئر بکس بھی توڑ دیا گیا تاکہ میرا قافلہ آگے نہ جاسکے‘ میرے ٹرک پر فائرنگ کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے میرے سکیورٹی گارڈز نے میری جان بچائی اور میں بچ گیا۔ طاہر القادری نے کہا کہ میں وزیر داخلہ کو اور اس کے ہر اقدام کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہوں کوئی مائی کا لال میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کا انچارج دہشت گردوں کا انچارج بنا ہوا ہے۔