اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے پی پی) وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے آئین کی پاسداری کے لئے حزب اختلاف کے م¶قف کا خیرمقدم کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا ہے کہ حکومت آئین و قانون کے مطابق شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کی راہ میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری بیان میں وزیراعظم نے آئین کی پاسداری اور ملک میں شفاف و آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے لاہور میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس کے بعد جاری اعلامیہ کا خیرمقدم کیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو یقین دلایا کہ انتخابات سے متعلق تمام معاملات پر ان سے مشاورت کی جائے گی تاکہ کوئی بھی انتخابات کے انعقاد یا نتائج پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام کے تحفظ اور آئین کی پاسداری کے لئے حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ اعلامیہ تاریخی اور ملک کے مستقبل اور جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے، یہ ملک کی سیاسی قوتوں کی سیاسی بصیرت کا اظہار بھی ہے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے جو الیکشن کمشن کی نگرانی میں کرائے جائیں گے۔ انتخابات کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا اعلامیہ آئین کی بالادستی اور جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے تاریخی ہے یہ اعلامیہ جمہوریت اور ملک کے مستقبل کے لئے نیک شگون اور سیاسی قوتوں کی پختگی ظاہر کرتا ہے۔ دریں اثناءصدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، دونوں رہنماو¿ں نے طاہر القادری کے دھرنے اور رینٹل پاور کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی مشاورت کی۔ وزیراعظم نے صدرآصف زرداری سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گفتگو میں نوازشریف اور دیگر اپوزیشن ہنما¶ں کی پریس کانفرنس پر بھی بات کی گئی۔ صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کی ہدایت کی اور کہا کہ کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے، حکومت مدت پوری کرے گی، انتخابات وقت پر ہوں گے۔ این این آئی کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور وزےراعظم راجہ پروےز اشرف نے اتفاق کیا جمہورےت کی مضبوطی کے لئے تمام سےاسی قوتوں سے رابطے رکھے جائےں گے، کسی کو بھی جمہورےت ڈی رےل کرنے کی اجازت دی جائے گی نہ ہی غےر آئےنی مطالبات تسلےم کئے جائےں گے۔ ذرائع کے مطابق صدر نے وزےراعظم کو ہداےت کی کہ تمام اتحادی، اپوزےشن اور دےگر سےاسی قوتوں سے آئندہ انتخابات کے حتمی تارےخ کے لئے فوری بات کرےں تاکہ شےڈول کے مطابق مقررہ تارےخ پر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اپوزےشن اور دےگر جماعتوں کی جانب سے جمہوری نظام کی حماےت عوام کی فتح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو عوام کو مےنڈےٹ حاصل ہے ان جماعتوں کی جانب سے جمہوری نظام کی حماےت کے بعد ےہ بات واضح کرتی ہے کہ ملکی تمام سےاسی قوتےں اور عوام ملک مےں جمہوری نظام کا تسلسل چاہتے ہےں۔ صدر اور وزےراعظم نے اس بات پر اتفاق کےا کہ تمام فےصلے آئےن اور قانون کے مطابق کئے جائےں گے، آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر منعقد کئے جائےں گے۔ وزیراعظم سے (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے ملاقات کی۔ ملاقات میں طاہر القادری سے مذاکرات کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ چودھری شجاعت حسین نے طاہر القادری کی جانب سے پیش کئے گئے چار مطالبات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ آئینی مطالبات کے علاوہ دیگر مطالبات پر طاہر القادری سے بات ہو سکتی ہے مگر طاہر القادری کا کوئی غیر آئینی مطالبہ تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ طاہر القادری کے انتخابی اصلاحات اور نگراں سیٹ اپ جیسے دو مطالبات پر بات چیت ہو سکتی ہے، باقی دو چونکہ غیر آئینی ہیں ان پر بات چیت ممکن نہیں۔ اے پی اے کے مطابق چودھری شجاعت نے وزیر اطلاعات کے بیان پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جس میں کائرہ نے طاہر القادری اور چودھری برادران سے حکومتی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ طاہر القادری سے ملاقات اور رابطے صدر اور وزیراعظم کی مشاورت ہی سے ہوئے تھے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت نے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے 4 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کو مسترد کرتے ہوئے انہیں غیرآئینی قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ مولوی طاہر القادری نے ان پڑھ اور جاہل قرار دے کر پوری پاکستانی قوم کی توہین کی ہے‘ شہادت پروف بنکر میں بیٹھ کر قوم کے معصوم بچوں اور بیٹیوں کو سردی میں مارا جا رہا ہے‘ طاہر القادری اپنے لب و لہجے کوکنٹرول کریں‘ سیاست دانوں نے یہ لہجہ اپنایا تو انہیں شکوہ ہو گا ‘ ہمیں چیف الیکشن کمشنر بھولو پہلوان نہیں چاہئے‘ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی ذات بے داغ ہے‘ 10/15 منٹوں کے مطالبات گھنٹوں میں پیش کر کے عوام میں ہیجان پیدا کیا جا رہا ہے‘ آئین کی کتاب ہاتھ میں رکھ کر آئین سے انحراف کرتے ہیں۔ وزیر مملکت سید صمصام بخاری‘ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مولوی طاہر القادری نے 23 دسمبر والے جلسے میں ترجیحات کے بارے میں نہیں بتایا۔ مارچ شروع ہوا تو دنیا کا سب سے بڑا مارچ قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو فتح کے شادیانے بجائے گئے۔ اب چارٹر آف ڈیمانڈ دے دیا جس پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ آئین اور پارلیمنٹ کو گرانے کی بات کی گئی۔ وہ عجیب و غریب مطالبے لے کر آئے کہ حکومت ختم کر دی جائے‘ اسمبلیاں توڑ دی جائیں‘ الیکشن کمشن کو توڑ دیا جائے‘ الیکشن کمشن تشکیل دینے کی وضاحت نہیں کرتے۔ وہ جو لب و لہجہ اپنا رہے ہیں، وہ ہمیں بھی اختیار کرنا آتا ہے۔ ہم نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے نسلیں قربان کی ہیں۔ حکومتیں ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، نگران حکومت کی بات کرتے ہیں، مشاورت کا طریقہ کار نہیں بتاتے جس طرح کی نگران حکومت وہ چاہتے ہیں وہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ اب کوئی بریف کیس والا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر پر سب کا اتفاق ہے ۔ بھارت میں 80 سالہ وزیراعظم ہیں قومیں اپنے بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتی ہیں، ان سے کشتی نہیں کرائی جاتی۔ طاہر القادری شاید احتشام ضمیر والا الیکشن کمیشن چاہتے ہیں۔ ایک طرف مولوی طاہر القادری عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنے کی بات کرتے ہیں دوسرے ہی لمحے وہ عدلیہ کے فیصلوں کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ضیاءالحق والا نعرہ طاہر القادری لگا رہے ہیں، ہم نے اتفاق رائے کی سیاست کو بھی فروغ دیا ہے۔ جو شخصیت الیکشن لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی وہ ریفارم مانگتے ہیں۔ لوگ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو شیلٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی چینلز دھرنے کا فضائی منظر دکھائیں کہ ایک کلو میٹر کی سڑک پر 40 لاکھ لوگ کس طرح سما گئے۔ ہم نے طاقت کا استعمال کہیں نہیں کیا۔ احتجاج جمہوری حق ہے مگر اس سے شہریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق نہیں ہونے چاہئیں۔ طاہر القادری آئین کا نام لے کر آئین سے انحراف کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں لکھ کے دیا ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے۔ انہوں نے ماسکو اور چین کے لانگ مارچ کی تاریخ نہیں پڑھی۔ دھرنے دینا ریاست کا نظام روکنے کے مترادف ہے۔ بعض اداروں کا نام لے کر وہ عوام میں نئی بحث چھیڑ رہے ہیں۔ ہمیں مذاکرات سے انکار نہیں مگر پہلے وہ سیاسی جماعت تو رجسٹرڈ کرائیں پھر بات ہوگی۔ ایسے غیر آئینی مطالبات کرنے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ حکومت 16 مارچ تک اپنی مدت پوری کرے گی۔ عوام کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ملک سے جمہوریت کو ڈی ریل کرے، ڈاکٹر طاہر القادری کو آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مطالبات پیش کرنے چاہئیں۔ ایک انٹرویو میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت تحریک منہاج القرآن کے دھرنے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور دھرنے کے عوام کی زندگیوں پر اثرات کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ اس صورتحال میں قانون حرکت میں آئے گا۔ اگر وہ سیاست میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں تو پھر آئین کے تحت ایسا کریں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ عام انتخابات 6 مئی سے قبل ہوجائیں گے‘ ملک میں جمہوریت کے دفاع کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہیں‘ جب عوام مشکلات میں تھے طاہر القادری اس وقت کہاں تھے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جمہوریت کے دفاع کا عزم اور جمہوریت کے حق کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا خوش آئند ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں‘ جمہوریت کیلئے اکٹھی ہیں۔ اگر حکومت نے کوئی غلط کام کررکھے ہیں تو عوام ہمارا احتساب انتخابات میں کریں گے۔ حکومت بروقت اور صاف شفاف انتخابات کرانا چاہتی ہے اس حوالے سے جلد اعلان کردیا جائے گا۔ عام انتخابات 6 مئی سے قبل ہوں گے۔ الیکشن 4 یا 5 مئی کو بھی ہوسکتے ہیں لیکن 6 مئی سے آگے نہیں جا سکتے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کرے گے اور شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔ صرف چیف الیکشن کمشنر ہی نہیں الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کو بھی سیاسی اتفاق رائے سے لایا گیا ہے۔ طاہر القادری کے دل میں عوام کا درد اچانک جاگا ہے۔ جب ملک میں تباہ کن زلزلہ آیا‘ سیلابوں نے تباہی پھیلائی‘ سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ بے گھر ہوئے۔ طاہر القادری اس وقت کہاں تھے۔ پرویز مشرف بھی طاہرالقادری کا حامی ہے اور غیر جمہوری قوتیں ان کی مدد کررہی ہیں۔ طاہر القادری سے پوچھا جائے کہ جو این جی اوز آپ کو لانگ مارچ کیلئے اربوں روپے دے رہی ہیں، انہوں نے کشمیر کے زلزلے اور سیلابوں کیلئے کیوں کچھ نہیں دیا۔