اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ بی بی سی اردو) وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ 10برس میں امریکہ افغانستان کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام رہا۔ پاکستان سے ایسی صورتحال تنہا ٹھیک کرنے کا مطالبہ درست نہیں۔ امریکی موجودگی کے باوجود افغانستان میں منشیات کی کاشت 3 ہزار گنا بڑھی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ نے پاکستان بھارت تعلقات پر نئے سوالات اٹھائے ہیں۔ پاک امریکہ مذاکرات میں خاموش سفارتکاری جاری ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی ہیرو نہیں ولن ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، افغانستان سے انخلا مثتب عمل ہے لیکن امریکہ کو ایک مستحکم افغانستان چھوڑنا ہو گا۔ دریں اثناءپاکستان نے سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ابتدائی قدم اٹھاتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے۔ یہ بات وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک کے ساتھ کسی صورت جنگ نہیں چاہتا۔ ہم سرحد کی دونوں جانب پائے جانے والے تناﺅ کو کم کرنے کے لئے ہر سطح پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ قبل ازیں وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے، پاکستانی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا بہانہ بنا کر جنگی جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے حالات پاکستان میں دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ نیویارک میں ایشیاءسوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ بھارت نے چھ جنوری کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں پاکستانی فوجی شہید ہوا۔ اس واقعہ پر پاکستان نے بھارت سے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سیاستدان تازہ جھڑپوں کے واقعات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش میں پا کستان کے خلاف سخت زبان کا استعمال کررہے ہیں۔ اس پر پاکستان کو سخت تشویش ہے۔ حنا ربانی کھر نے اعتراف کیا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے امریکی انتظامیہ بھی کہہ چکی ہے کہ پاکستان میں بھی کسی کو اسامہ کی موجودگی کا علم نہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکیل آفریدی دہشت گردوں کے لیے کام کررہا تھا۔ حنا ربانی کھر نے ایک مرتبہ پھر جھڑپ میں دو بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور ان میں سے ایک فوجی کی سربریدہ نعش کے برآمد ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات سے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ پاکستان کا جمہوری سفر کے عنوان سے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مےں پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوا، اس نے اپنے چالیس ہزار شہریوں اور سات ہزار فوجیوں اور نیم فوجیوں کی جانیں گنوائیں ہیں اور ستر ارب ڈالر سے زائد کے اقتصادی نقصانات اٹھائے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ کے استحکام کی ضمانت نہیں دے سکتیں کیونکہ جو بیج 30 سال قبل بویا گیا تھا وہ ابھی مکمل طور پر ختم نہں ہوا۔ اسے ختم کرنے کی ضروت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی شخص یہ کہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کا اثاثہ ہے، وہ پاکستانی حکومت کا نمائندہ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ وقت میں ایسے خیالات جنرل کیانی کے ہیں۔ انہوں نے اسکی تصدیق کی کہ افغانستان کی حکومت کی درخواست پر پاکستان طالبان اور دوسرے گروہوں اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے براہ راست مذکرات میں مددگار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکی کالم نگار کے ایک اور سوال کہ حقانی نیٹ ورک کے لوگ پاکستان کی سرحد سے پارک کر کے افغانستان میں امریکی فوجوں پر حملے کرتے ہیں، کے جواب میں حنا ربانی کھر نے کہا کہ حقانی بھی ان تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے ایک ہے جو پاکستان پر بوجھ ہے۔ ان تیس لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس بلا لیا جائے تو حقانی بھی چلے جائیں گے۔ کون جانتا ہے کہ وہ کل نیویارک شہر میں آ کر بس جائیں۔