چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے رینٹل پاور عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین نیب فصیح بخاری نے کیس میں رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رینٹل پاورریفرنس ناقص ہے،تفتیشی افسر نے اہم ریکارڈ سے پہلو تہی کی۔ تحقیقات میں رقم کی رضا کارانہ واپسی ہوئی اورقومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ فصیح بخاری نے مزید کہا کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نیب رپورٹ حقائق کے منافی ہے لگتاہے پراسیکیوشن کے بجائے وکیل صفائی نے بنائی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نےفصیح بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بیان اور نیب کی رپورٹ میں تضاد ہے۔ نیب کی رپورٹ اور پراسکیوٹر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس کی تمام فائلیں طلب کرتے ہوئے رپورٹ بنانے والے ایڈیشنل پراسکیوٹر کیخلاف کارروائی کا حکم دیا۔ اس پرپراسکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے۔۔۔ آپ نیب کی تفتیش کا ریکارڈ نہیں دیکھ سکتے۔ فصیح بخاری نے کہا کہ وہ نیب آرڈیننس کے تحت ہی کام کرینگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ چیئرمین نیب ہیں سپریم کورٹ کے جج نہیں۔ رات دس بجے تک بھی کیس کو سننا پڑا تو سنیں گے۔ سماعت کے آغازپر راجہ پرویزاشرف سمیت تمام ملزمان کی عدم گرفتاری پراظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رینٹل پاور کیس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں،ہم ایک بات جانتے ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تیس مارچ دوہزاربارہ کوفیصلہ نیب کی میزپرتھا، تفتیش ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوئی۔
رینٹل پاورکیس: سپریم کورٹ نے کی تمام فائلیں فوری طلب کرلیں۔ رات دس بجے تک بھی کیس کو سننا پڑا توسنیں گے۔ چیف جسٹس
Jan 17, 2013 | 13:16