اقوالِ ناز

خیالات کے تانوں پر عمل کے بانے چلتے ہیں تو یہ تانے بانے مل کر انسان کا کردار بُنتے ہیں، شاید اِسی لیے گفتگو انسانی کردار کا پرتو کہلاتی ہے۔ انسانی خیالات کردارکے سانچے میں ڈھل کر جن الفاظ کی اُس کے اندر بُنت کرتے ہیں، انسان وہی الفاظ کردار اور عمل کی صورت میں لوٹا دیتا ہے۔ اس میں بھلا کیا شبہ ہے کہ خیالات کا تنوع انسانی کردار میں بھی نکھار پیدا کرتا ہے اور عمل کا تحرک انسانی کردار کو معراج پر پہنچا دیتا ہے، تو پھر کیوں ناں آج روایتی باتوں اور کہانیوں کی بجائے چیزوں کو ذرا مختلف زاویے سے دیکھا جائے اور ایسی گفتگو چھیڑی جائے جس کی مدد سے انسانی کردار کو سمجھنے میں مدد ملے۔
خیالات کو انوکھے انداز میں مجسم کرنے کا یہ فن ہے ہی ایسا کہ گفتگو کی شاخ پر پھوٹنے والے ہر جملے پر ناز کیا جا سکتا ہے۔ اگر چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنے کے اِس فن نے پسندیدگی کی سند پائی تو یہ شگوفے کالم کی شاخوں پر آئندہ بھی پھوٹنے کو بے تاب رہیں گے ورنہ یہ ’’فن‘‘ بھی وقت کی دھول سے اَٹ کر حوادثِ زمانہ کی گردِ راہ بن کر رہ جائے گا۔
٭۔ ارسطو جیسا خوش قسمت کون ہو گا، جو اپنے اسّی فیصد نظریات باطل ثابت ہونے کے باوجود بائیس سو سال بعد بھی فلسفے اور سائنس کا باوا آدم کہلاتا ہے اور آج بھی فلسفیوں کی الف اور ارسطو کی الف ایک ہی سمجھی جاتی ہے۔ ارسطو کا نام آج بھی محض اس لیے زندہ ہے کہ اس کے نظریات غلط ہی سہی لیکن اس نے اپنے نظریات و خیالات میں چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھنے کا سلیقہ اور حوصلہ عطا کیا۔
٭۔ ندیدے انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے لیکن آنکھیں نہیں بھرتیں اور ندیدے انسان کی آنکھوں کو صرف قبر کا اندھیرا ہی بھر سکتا ہے۔ قبر کی مٹی تیار ہوتے ہی بدعنوانی سے اکٹھی کی ہوئی عمر بھر کی دولت بھی مٹی ہوجاتی ہے۔ مٹی جمع مٹی برابر مٹی، انسان ساری عمر مٹی اکٹھی کرنے کیلئے کیسے کیسے اپنی مٹی پلید کراتا رہتا ہے۔ لالچ انسان کو ذلت اور رسوائی کی پگڈنڈی پر ایسے دوڑاتا ہے، جیسے موت کے کنویں میں کرتب دکھانے والا موٹر سائیکل دوڑاتا ہے، ہر وقت نیچے گرنے کا خطرہ تو رہتا ہی ہے لیکن وہ نہ گرے تو بھی تھوڑی دیر بعد خود ہی اُسے نیچے آنا پڑجاتا ہے اور دنیا تماشائی کی طرح اوپر کھڑی ہنستی رہتی ہے۔
٭۔ کچھ الفاظ سانپ کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کو ہی کھا جاتے ہیں جبکہ کچھ الفاظ بندر نما ہوتے ہیں جب اِن الفاظ کو اپنی گرمی دکھانے کا موقع ملتا ہے تو یہ الفاظ بولنے والے کو اپنے پاؤں تلے لے لیتے ہیں۔ جمہوریت ایک ایسی طرزِ سیاست ہے جس میں اکاون پر پہنچنے کے بعد گنتی ختم ہو جاتی ہے اور باقی کے انچاس کی قیمت صفربھی نہیں لگتی، یوں جمہوریت میں ’’دو کروڑ ایک‘‘ کے سامنے ’’دو کروڑ‘‘ والے کی اہمیت مٹی کے ایک ڈھیلے سے زیادہ نہیں ہوتی۔
٭۔ فیس بُک کو حقیقت میں ایک ’’چہرہ کتاب‘‘ بنانا ہے تو آئیں آج سے فیس بُک کو ’’بَک بَک‘‘ کرنے کی جگہ بنانے سے مکمل احتراز کرنا شروع کر دیں۔ موبائل فون کی صورت میں آپ نے اپنی ٹینشن خود پال رکھی ہے، اِس پر آپ دوسروں کو قصور وار مت ٹھہرائیں، چند دن کیلئے اپنا موبائل فون گم کر کے دیکھیں، آپ کا فشارِ خون بھی نارمل ہو جائے گا۔ آپ اگر کسی کے ساتھ حقیقت میں دشمنی نکالنا چاہتے ہیں تو اسے ایک موبائل خرید کر لے دیں، سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی بچ جائے گی۔ انٹرنیٹ واقعی ایک ’’جال‘‘ ہے، جو اس میں ایک بار پھنس گیا، پھر آسانی سے گلو خلاصی ممکن نہیں۔
٭۔ سرکاری ملازمت میٹھا زہر ہے، جو انسان کی صلاحیتوں کو آہستہ آہستہ موت کی نیند سُلا دیتا ہے، جبکہ پرائیویٹ نوکری وہ ’’کوڑتما‘‘ ہے جسے کھاتے ہوئے تکلیف تو ہوتی ہے، لیکن وہ انسان کے اندر کا سارا زہر چوس کر اُسے نوخیز بنا دیتا ہے۔
٭۔ انسان جب سچ مچ بوڑھا ہوجاتا ہے تو اُس کی وِگ کے بال بھی سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا، لیکن خوشی، غمی، غصے اور محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے وہ احقرالمخلوقات بننا پسند کرتا ہے، میرا شیر پتر، ہمارے شاہین، گیدڑ کہیں کا، ہرنی جیسی چال، چیتا ہے چیتا ہے تُو، شیر بن شیر جیسے الفاظ بھی دراصل جذبات کا نئے زاویوں سے اظہار کرنے کا نام ہے۔
٭۔ لوڈشیڈنگ وہ واحد عذاب ہے، جو زمین والوں پر آسمان کی بجائے زمین سے ہی نازل ہو رہا ہے۔ حکومت توانائی کی تقسیم میں بدانتظامی اور عوام توانائی کے استعمال کے معاملے میں فضول خرچی چھوڑ دیں تو لوڈشیدنگ کا عذاب ٹل سکتا ہے۔
٭۔ ڈرون حملے بند کرائے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم ڈارون کی تھیوری کے مطابق ’’بندروں‘‘ کو اپنا مائی باپ سمجھنا اور ڈالروں کی ڈگڈگی پر تماشا دکھانے کیلئے بیتاب ہونا چھوڑ دیں۔ خودکش بمبار ’’میٹرکس‘‘ سے متاثر ہیں، یوں تحلیل ہوکر جنت میں جانے کا یہ نرالہ اور انوکھا طریقہ سائنس فکشن کی نئی ایجاد کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن