یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ داعش (دولتِ اسلامیہ عراق اور شام) نے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں عراق کے اتنے بڑے علاقے کو اپنے زیرِنگیں کر لیا ہے جتنا بڑا علاقہ بہت سے عرب ممالک کے زیرِنگیں نہیں ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ داعش نے انصار بیت المقدس کو اپنا اتحادی قرار دیا ہے اور امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اِدھر چند امریکی دانشور آج کے مشرقِ وسطیٰ کو امریکہ کا دوسرا ویتنام قرار دینے لگے ہیں۔ آرمی کے جرائد سے لے کر United States Institute of Peace کے اداروں سے وابستہ سیاسی تجزیہ کاروں تک سپاہِ دانش کے متعدد کارکن و کارکشا مستقبلِ قریب کے نئے مشرقِ وسطیٰ کے نِت نئے نقشے شائع کرنے لگے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب نظریہ ساز ایک صدی پیشتر کی اس سامراجی بندر بانٹ کو غلط ثابت کرنے میں مصروف ہیں جو پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے کی تھی۔ ایران نژاد امریکی دانشور ولی نصر نے بھی اپنے تازہ مضمون بعنوان A century-old crisis (مطبوعہ نیویارک ٹائمز بابت 11 اگست 2014ئ) میں مشورہ دیا ہے کہ عرب دُنیا کا نیا نقشہ فوجیوں کی بجائے سیاسی مدبروں کو مرتب کرنا چاہیے۔ میری حقیر رائے میں یہ حکمتِ عملی بھی لاحاصل ثابت ہو گی۔ اِس لیے کہ عرب دُنیا کا موجودہ نقشہ بھی فی الحقیقت سیاسی تدبر ہی کا نتیجہ ہے۔ لارنس آف عریبیہ کے ساحروں اور یورپ کی خفیہ ایجنسیوں کے جال میں پھنس کر ہی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف جہد آزما عرب افراد اور گروہوں کو بالآخر منہ کی کھانا پڑی تھی۔
بلاشبہ خلافتِ عثمانیہ میں ہزار عیب تھے مگر یورپ کی طاقتیں اِن عیوب کو ثواب بنانے کے جذبے سے نہیں بلکہ دُنیا کے نہایت اہم تجارتی راستوں کو مسلمانوں سے چھین لینے کے جذبے سے پہلی جنگِ عظیم میں کود پڑی تھیں۔ ڈاکٹر افضل اقبال نے اپنی کتاب Life and Times of Muhammad Ali میں مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور سیاست پر اپنی کتاب میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کی اُن رپورٹس کا حوالہ دیا ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ اب صیغۂ راز میں نہیں رہیں، اِس حقیقت کے ثبوت کا حوالہ دیا ہے۔ اِن میں سے صرف ایک رپورٹ پیشِ خدمت ہے:
"The Turkish Empire 'should perish root and branch'; a power, 'which had posed in the past as the champion of Islam, has kept Christendom at bay, and has held the key of the road from Vienna to the East,' must be destroyed." (Secret Memorandum by Political Department, India Office, November B.233, dated 25th May 1916, Pp.163-164)
گویا پہلی جنگِ عظیم بھی ایک صلیبی جنگ تھی جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دُنیا میں عیسائیت کا بول بالا کرنا تھا۔ اِس مقصد کے حصول کی خاطر عربوں اور ترکوں کے درمیان منافرت کو ہَوا دے کر دُنیا کے اہم ترین تجارتی راستوں کو اپنے تسلط میں لینا تھا۔ اِدھر جنگ ختم ہوئی اور اُدھر وہ تمام وعدے فراموش کر دیئے گئے جو عربوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکانے کیلئے کیے جاتے رہے تھے۔ میک موہن - حسین معاہدے کا اوّلین مقصد ایک متحدہ عرب ریاست کا قیام تھا۔ ہرچند یورپی سامراج نے عرب قوم پرستوں کو اسی آزاد اور خود مختار متحدہ عرب ریاست کا خواب دِکھا کر سلطنتِ عثمانیہ کیخلاف متحرک کیا تھا تاہم اپنے سامراجی مقاصد پورے ہوتے ہی یورپ کی یہ طاقتیں اس عہد سے منحرف ہو گئیں۔ نتیجہ یہ کہ عرب دُنیا سلطنتِ عثمانیہ کے تسلط سے تو آزاد ہو گئی مگر یہ آزادی یورپی سامراج کی ایک تازہ تر اور تلخ تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی- ایک رُوسی سیاسی مؤرخ V. Lutsky نے اپنی کتاب بعنوان Modern History of the Arab Countries کے اختتامی پیراگراف میں لکھا ہے کہ ادھر جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی اور اُدھر ایک متحدہ عرب ریاست کا خواب صحرائے عرب کی ریت میں مل کر رہ گیا۔ میکموہن حسین معاہدے کا اوّلین مقصد صرف ایک آزاد متحدہ عرب ریاست کا قیام تھا-مگر ہوا یہ کہ جنگ میں کامیابی کے نتیجے میں عرب دنیا سلطنتِ عثمانیہ کے تسلط سے تو آزاد ہو گئی مگر یہ آزادی یورپی سامراج کی ایک تازہ تر اور تلخ تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی:
سلطنتِ عثمانیہ سے دُنیا کی اہم ترین شاہراہیں چھین لینے کے فوراً بعد یورپی سامراج نے عرب دُنیا کی وحدت کو کثرت میں بدل دیا۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی یہ نئی عرب دُنیا یورپی سامراج کے لے پالک کارندوں کے برائے نام تسلط میں دے دی گئی۔ اصل حکمران تو یورپی مشیر تھے۔ اِس ضمن میں صرف ایک مثال کافی ہے۔ برطانوی حکومت نے اپنے وفادار کارندے فیصل کو جب تخت پر بٹھایا اُنکے دائیں بائیں برطانوی افسران بٹھا دیے گئے۔ سٹیج برطانوی پرچموں سے سجا دیا گیا اور برطانوی فوجی ترانہ God save the king بجایا جانے لگا۔ اِسی نوعیت کی تاجپوشیاں عرب دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں منعقد کی گئیں۔ اپنے اپنے ملک میں جمہوری نظام کو اپنے سیاسی ایمان کا جزو قرار دینے والے یورپی ممالک نے اِن عرب ممالک کو جمہوریت سے محروم رکھنے کی خاطر ایک سراسر جھوٹا بیانیہ ایجاد کیا۔ اِس سیاسی بیانیے کے مطابق اِن ممالک کو پسماندہ اور غیر مہذب ثابت کر کے اِن پر بالواسطہ خاندانی بادشاہت ، قبائلی آمریت یا فوجی تسلط کے قیام کو انسانیت کی فلاح و بہبود سے تعبیر کیا۔
یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ عرب دُنیا کو وحشت و بربریت سے متصف کرنیوالے وہ لوگ ہیں جن کے آبائواجداد کو اسلام کے زریّں آفاقی انسانی تصورات سے خود عربوں نے آگہی بخشی تھی۔ یہ عرب مسلمان ہی تھے جنہوں نے یورپ میں وحشت و بربریت کی تہ در تہ تاریکیوں میں انسانیت کی شمعیں روشن کی تھیں- یورپ کے ازمنۂ تاریک (Dark Ages) کو اِن عرب مسلمانوں ہی نے روشن کیا تھا- عربوں کی جہالت ، پسماندگی کا یہ جھوٹا بیانیہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے اپنا لیا- چنانچہ آج تک امریکی اور یورپی ممالک صرف عرب دُنیا ہی نہیں پوری دُنیائے اسلام میں شہنشاہیت اور آمریت کو برحق قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اِس ضمن میں صرف ایران اور مصر کی مثال ہی لیں تو کُھلتا ہے کہ ایران میں مصدق حکومت کا تختہ اُلٹنے کی خاطر اور پھر یہاں اپنے ایک لے پالک شہنشاہ کو تخت نشین کرنے کی خاطر صرف ایک تنظیم CIA نے اپنی ذہانت اور اپنے سرمائے سے کام لیا تھا۔ مصر کی مثال تو ابھی کل کی ہے۔ صدر مُرسی کی جمہوری حکومت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینے اور اخوان المسلمون کی رفاہی تنظیموںتک کو دہشتگرد قرار دِلوانے میں امریکی رہنمائی اور سرپرستی کا عمل دخل حساب سے باہر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کا سفر بار بار رُکاوٹوں کا شکار ہو سکتا ہے مگر اِس باب میں مغربی سامراج اور اُس کے مشرقی کارندوں کی مشترکہ کوششوں کے نصیب میں شکستِ فاش لکھی ہے۔ اِس کا ایک ثبوت تیونس میں جمہوری عمل کا تسلسل اور استحکام ہے۔ اخوان المسلمون کی حکومت نے آئین سازی کے بعد نئے انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت ندائے تیونس کو اقتدار منتقل کر دیا ہے۔ عرب بہار کے پہلے شگوفے یہیںسے پھوٹے تھے اور آج اِن شگوفوں نے تیونس کی فضا کو گُل و گلزار بنا کر رکھ دیا ہے۔ یقیناً گُلزار تیونس کی خوشبو آس پاس کے عرب ممالک میں پھیلنے میں دیر نہ لگائے گی!