حکمرانوں کی ایسی پالیسیاں ہی جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہوتی ہیں

 ملک بھر میں پٹرول کی بڑھتی ہوئی قلت‘ حکومتی بے نیازی اور عوامی اضطراب

حکومتی بدنظمی اور بے نیازی سے ملک میں پیدا ہونیوالا پٹرول کی قلت کا بحران مزید سنگین ہو گیا ہے اور ملک کے کم و بیش تمام پٹرول پمپوں پر پٹرول کے حصول کیلئے آنیوالی گاڑیوں کو لمبی لائنوں میں لگ کر کئی کئی گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد بھی پٹرول دستیاب نہ ہو سکا اور جن پٹرول پمپوں پر تھوڑا بہت پٹرول دستیاب تھا‘ وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور دو سو روپے لٹر تک پٹرول فروخت کرکے پٹرول سستا ہونے کی ساری کسر نکالتے رہے۔ گزشتہ روز لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ کوئٹہ‘ پشاور سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں پٹرول نایاب رہا اور شہری مارے مارے پھرتے رہے اور مایوس ہو کر حکمرانوں کو کوسنے دیتے گھروں کو واپس لوٹتے رہے جبکہ پٹرول دستیاب نہ ہونے سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی کم ہو گئی۔ اکثر نجی ٹرانسپورٹروں نے اپنی بسیں اور گاڑیاں مختلف روٹس پر روانہ نہیں کیں اور گاہے گاہے روانہ ہونیوالی پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان بھی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان سے ڈبل سے بھی زیادہ کرایہ وصول کرتے رہے۔ حکومتی بے تدبیریوں سے سی این جی سٹیشن پہلے ہی تین ماہ کیلئے بند ہو چکے ہیں جبکہ اب پٹرول بھی نایاب ہونے سے ملک میں عملاً افراتفری کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں حکومت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکمرانوں کو صورتحال کی اس سنگینی کا ابھی تک احساس بھی نہیں ہوا اور سوائے زبانی جمع خرچ کے‘ پٹرول کی قلت پر قابو پانے کیلئے ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا جبکہ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے مسائل میں گھری قوم کو یہ خبر سنا کر مزید پریشان کردیا ہے کہ پٹرول کی قلت دور کرنے میں ابھی مزید دس بارہ روز لگیں گے۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے کے باعث پٹرول کی طلب بڑھنے کو پٹرول کی قلت پیدا ہونے کا جواز بنایا اور کہا کہ پٹرول کی طلب دس گیارہ ہزار ٹن یومیہ سے بڑھ کر اس وقت 15 ہزار ٹن سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ پٹرول کی ایک شپمنٹ لیٹ ہونے کے باعث بھی پٹرول کی طلب پوری نہیں کی جا سکی۔
دوسری جانب پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) نے تو آئندہ ماہ فروری میں بھی پٹرول کی قلت کا خدشہ ظاہر کرکے حکومتی بدنظمی کا بھانڈہ ہی پھوڑ دیا ہے۔ پی ایس او کے ترجمان کے بقول پی ایس او کے پاس پٹرول درآمد کرنے کے پیسے ہی موجود نہیں اس لئے پٹرول کی درآمد رکی ہوئی ہے جبکہ آئندہ ماہ فروری کیلئے بھی اب تک فرنس آئل کا آرڈر نہیں دیا جا سکا۔ ترجمان کے بقول حکومت کی جانب سے پی ایس او کو پچاس ارب روپے ادا کئے جائینگے تو یہ کمپنی پٹرول کی درآمد کے نئے آرڈر دینے کی پوزیشن میں ہو گی‘ بصورت دیگر آئندہ ماہ بھی عوام کو پٹرول کی نایابی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ دو ہفتے قبل پٹرول کی عدم دستیابی کا سلسلہ شروع ہوا مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران طبقات اور وزارت پٹرولیم کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی کے تحت ایک دن گزار کر اگلے دن کیلئے بے نیازی اختیار کی جاتی رہی جس سے پٹرول کی عدم دستیابی کے بحران میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ حکمران پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم کرنے کا کریڈٹ ضرور لیتے رہے مگر اس معاملہ میں مکمل بے نیاز رہے کہ عوام کو پٹرول دستیاب بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔ جہاں تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا معاملہ ہے اس میں بھی حکمرانوں نے خوب ڈنڈی ماری اور عالمی مارکیٹ میں گزشتہ پانچ ماہ سے جاری تیل کے نرخوں میں کمی کے رجحان کا پہلے دو ماہ تک تو عوام کو فائدہ ہی نہ پہنچنے دیا جبکہ تیسرے مہینے حکومت نے عمران خان کی دھرنا تحریک کا دبائو کم کرنے کیلئے عوام کو تیل کے نرخوں میں کمی کا مژدہ سنایا جو عالمی مارکیٹ میں ہونیوالی کمی کا عشرعشیر بھی نہیں تھی۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرول کے نرخ 120 ڈالر فی بیرل سے کم ہوتے ہوتے 44 ڈالر فی بیرل تک آگئے ہیں اور اس حساب سے پاکستان میں بھی پٹرول کے نرخ زیادہ سے زیادہ پچاس روپے فی لٹر مقرر ہونے چاہئیں مگر حکومت نے ہر مہینے عوام کو ترسا ترسا کر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جو کمی کی‘ اس میں بھی جی ایس ٹی میں اضافہ کرکے حساب برابر کر دیا اور اب سرے سے پٹرول دستیاب ہی نہیں۔ چنانچہ پٹرول پمپ مالکان کو بھی اپنا ناجائز منافع کھرا کرنے کا نادر موقع مل گیا ہے۔ پی ایس او کے ترجمان کے مؤقف کی روشنی میں اگر پٹرول کی قلت پی ایس او کو مطلوبہ ادائیگی نہ کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہے تو بیڈگورننس کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے جبکہ حکمرانوں کو پٹرول کے بحران سے پیدا ہونیوالے عوامی اضطراب کا ابھی تک احساس بھی نہیں ہو پایا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اس بحران سے کان لپیٹتے ہوئے خود سعودی عرب روانہ ہو گئے جبکہ پٹرولیم کے وزیر اور سیکرٹری پٹرولیم نے پہلے اس بحران کے حوالے سے کسی قسم کی وضاحت کی زحمت بھی نہ کی اور گزشتہ روز وزیر پٹرولیم نے لب کشائی کی تو عوام کو مزید جھٹکا لگاتے ہوئے انہیں پٹرول کی قلت آئندہ دو ہفتے تک برقرار رہنے کا ’’مژدہ‘‘ سنادیا۔ جمہوری حکمرانوں کی ایسی عاجلانہ پالیسیوں اور بے نیازیوں کے باعث ہی سلطانیٔ جمہور کا مردہ خراب ہوتا ہے اور غیرجمہوری عناصر کو جمہوریت کی بھد اڑانے اور اس کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانے کا موقع ملتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی ہی عاقبت نااندیشیوں کے باعث جمہوریت کی بساط بار بار لپٹوانے کے باوجود سلطانیٔ جمہور کی صورت میں اقتدار میں آنیوالے سیاست دانوں نے اب تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اپنے دور اقتدار میں میرٹ کا جنازہ نکالتے‘ اقرباء پروری کی انتہاء کرتے‘ قومی خزانے اور وسائل کو اپنے تصرف میں لاتے اور کرپشن و لوٹ مار کی نئی داستانیں رقم کرتے وہی روش اختیار کئے رکھتے ہیں جو بالآخر جمہوریت کو خراب کرنے پر منتج ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں موجودہ حکمرانوں کا ٹریک ریکارڈ تو اور بھی خراب ہے جنہوں نے اپنے ہر دور حکومت میں عوام کو زچ کرنیوالی پالیسیاں ہی اختیار کی ہیں جس کے باعث وہ اپنے خلاف عوامی تحریک کی راہ بھی خود ہی ہموار کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے اگرچہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے تحت گزشتہ سال 14 اگست کو اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا مگر عوام حکمرانوں کے پیدا کردہ روٹی روزگار کے مسائل‘ بجلی‘ گیس کے بحران اور مہنگائی کے عفریت سے زچ ہو کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریکوں کی جانب متوجہ ہوئے اور انکی سیاست کے فروغ کا باعث بنے۔ جب اس تحریک کے نتیجہ میں حکمرانوں کو اپنا اقتدار کا سنگھاسن خطرات میں گھرا نظر آیا تو انہوں نے منتخب ایوانوں کی جانب توجہ دی اور وزیراعظم نوازشریف خود تواتر کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہونے لگے۔ وہ اس حکومت مخالف تحریک کے دبائو پر ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم کرنے پر مجبور ہوئے تھے جس کا اعلان خود کرکے انہوں نے سیاسی کریڈٹ لینے کی کوشش کی مگر سانحۂ پشاور کی بنیاد پر عمران خان نے جیسے ہی اپنی دھرنا سیاست ختم کرنے کا اعلان کیا‘ حکمران عوام کو لوٹنے اور انہیں روزمرہ کے مسائل کی مار مارنے کیلئے پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے جبکہ اس وقت عملاً یہ صورتحال ہے کہ حکومتی گورننس کہیں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آرہی جو حکومت کی اپنی کمزوریوں کے باعث دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ہر شعبۂ زندگی میں فوج کے عمل دخل کے نتیجہ میں عملاً فوج کی حکمرانی میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ سول حکمرانی کی رہی سہی کسر حکمران طبقات بے نیازی پر مبنی اپنی پالیسیوں سے نکال رہے ہیں۔ اگر اس وقت حکومتی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں عوام کو ملک بھر میں پٹرول کی قلت کا سامنا ہے جس سے روزگار حیات مفلوج ہو کر رہ گیا ہے تو امور حکومت تک میں فوج کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے حاصل ہونیوالی عوامی پذیرائی براہ راست افواج پاکستان کے اقتدار کی نوبت ہی لائے گی جس کے بعد ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل نہ کرنیوالے یہی سیاست دان پھر جمہوریت کی بحالی کیلئے اگلی ایک دو دہائیوں تک سر پھٹول کرتے نظر آئینگے۔ کیا کبھی انہیں عقل آئیگی کہ وہ سلطانیٔ جمہور کیخلاف ماورائے آئین اقدام والی سازشوں کو پنپنے نہ دیں۔ مگر یہ تو اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ انہیں سوچ رکھنا چاہیے کہ بجلی‘ گیس کی قلت اور مہنگائی کے مارے عوام اب پٹرول کی قلت سے جتنے مضطرب ہیں‘ وہ دوبارہ سڑکوں پر آئے تو اقتدار کے ایوانوں کا انجرپنجر ہلا دینگے۔ عوام کو مسائل کے دلدل کی جانب دھکیلنے والے حکمرانوں کو بھلا کیونکر حقِ حکمرانی حاصل ہو سکتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن