گستاخانہ کارٹون بنانے والے اخبار کے دفتر کے اندر گھس کر کچھ مشتعل لوگوں نے صحافیوں اور کارٹون بنانے والوں کو قتل کر دیا۔ سنا ہے وہ ہاتھ باندھ کر معافیاں مانگ رہے تھے۔ عالم انسانیت اور عالم اسلام کے لوگ قاتلوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو غم و غصہ انتہا کا ہے۔ مگر کیا کریں مسلمان عشق رسولؐ رکھتے ہیں مگر شاید عشق نہیں رکھتے۔ یہ بات طے ہے کہ مسلمان جان تو دے سکتے ہیں۔
اس کا جواب فرانس کے لادین دانشوروں اور دنیا بھر کے مسیحیوں کے روحانی سربراہ پوپ فرانسس نے دے دیا ہے۔ ان کا نام بھی فرانس کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ ہم پوپ فرانسس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس بہانے سے کسی عالمی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ اس جملے پر اسلام دشمن اور طاغوتی طاقتیں غور کریں۔ پوپ صاحب نے کہا کہ میری ماں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے کو گھونسا کھانے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور مسلمانوں کے پیغمبر اعظمؐ کی عزت کروڑوں مائوں سے بڑھ کر ہے۔ عاشقان رسولؐ کا یہ جملہ ایمان کی حیثیت رکھتا ہے۔
فرانس کے جریدے نے دوسرے پرچے میں پھر گستاخانہ کارٹون چھاپے تو دنیا والے ان کے خلاف ہو گئے۔ بجائے اس کے کہ ان کے مقتول لوگوں کے لئے کوئی اظہار کرتے، الٹا ان کی مذمت کر رہے ہیں۔ مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور ایک قیامت آ گئی۔ ایک گھٹیا کاروباری بات یہ بھی ہے کہ اس طرح ایک معمولی رسالے کے مالکان ساری دنیا میں بدنام ہو کر اپنے معاملات کو پوری دنیا میں پھیلا لیتے ہیں جو رسالہ 30 ہزار بھی اشاعت نہیں رکھتا تھا۔ اگلے پرچے کی اشاعت لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔ ایک تیسرے چوتھے درجے کا نام نہاد مسلمان ادیب سلمان رشدی اب پہلے درجے کا آدمی بن چکا ہے۔ اسے وائٹ ہائوس میں استقبالئے دیے گئے ہیں۔ اب بھی برطانوی وزیراعظم نے آزادی اظہار کی حمایت کی ہے۔
فرانسیسی صدر نے تو کہا ہے کہ فرانس میں مسلمان بھی برابر کے حقوق کے مالک ہیں۔ پاکستان میں فارن فنڈڈ این جی اوز جو اپنے ملک میں غیرمسلموں کے حقوق کا شور مچاتی رہتی ہیں اب کہاں ہیں؟ غیرمسلم ملکوں میں مسلمانوں کے حقوق نہیں ہوتے؟ اپنے ملک میں بھی نہیں ہوتے۔ اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا۔ جیسے قاتل کے حقوق ہوتے ہیں مقتول کے حقوق نہیں ہوتے۔
یہ بھی کہیں سے آواز آئی ہے کہ یہ تیسری جنگ عظیم کے آغاز کے آثار ہیں۔ ’’صدر‘‘ بش نے دہشت گردی کے خلاف ایک ذاتی اور مصنوعی جنگ مسلمانوں کے خلاف چھیڑ کر اسے تہذیبوں کی لڑائی کہا تھا اور اس لڑائی کو کروسیڈ کہا تھا۔ امریکی دہشت گردی اب عالمی دہشت گردی بن گئی ہے۔ امریکہ میں پھر نائن الیون جیسی ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ہوئی۔ اب تو ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ’’صدر‘‘ بش کی خود ساختہ کارروائی تھی۔ اس طرح مسلمانوں کو دہشت گردی میں الجھانا مقصود تھا۔ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں مگر کسی یورپی جریدے میں مسلمانوں کے پیغمبر اعظمؐ کے خلاف گستاخانہ باتیں دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہیں۔ یہ بات الطاف حسین نے کہی ہے اور انہوں نے عالم اسلام کو متحد ہونے کے لئے بھی تلقین کی ہے۔ اور انہیں نئے چیلنجز کے مقابلے کے لئے مکمل طور پر تیار ہو جانے کے لئے بھی اپیل کی ہے۔
قومی اسمبلی میں پھر سیاستدانوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کردار بہت ولولہ انگیز اور ایمان افروز ہے۔ جب ممبران اسمبلی ایوان سے باہر آئے تو سب کے سب ساتھ تھے۔ خواجہ سعد رفیق یہاں بھی ایک قائد کی طرح شرکاء کے درمیان نعرے لگوا رہے تھے۔ ’’رہبر و رہنما مصطفیؐ، مصطفیؐ‘‘۔ یہ موقع ہے کہ تمام عالم اسلام کو متحدہ ہو نا چاہئے۔ عالم اسلام کے تمام حکمران فرانس کے سفیروں کو اپنے اپنے ملک میں دفتر خارجہ طلب کریں اور احتجاج کریں۔ ایک دفعہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کے لئے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کرنا پڑے گا۔ مگر ابھی تک مسلمان حکام کی طر ف سے ایسے مضبوط احتجاج کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ صرف ترک وزیراعظم نے کیا ہے اور روتے تڑپتے ہوئے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم لڑیں گے۔ یہ بجا طور پر جائز بات ہے۔ دنیائے اسلام پاکستان کے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہی ہے۔ انہیں ہر طرح کی سیاست سے بالاتر ہو کر ایسی بات کرنا چاہئے جو ایک عاشق رسولؐ کے لئے زیبا ہو۔ نواز شریف ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو دین کی محبت میں سرشار ہے۔ وہ آدمی ابھی موجود ہیں جنہوں نے حسین نواز کی بہت درد والی آواز میں نعتیں سنی ہوئی ہیں۔ نواز شریف نے گستاخان رسولؐ کی مذمت کی ہے مگر اب بات مذمت سے آگے کی ہونا چاہئے۔ اس کے خلاف بھی کچھ مضبوط اقدام کی ضرورت ہے۔
میں اس حوالے سے ایک اور کالم میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کراچی میں مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے ہو گئی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ کوئی پلاننگ نہیں ہے کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں کیوں کر رہے ہیں اور اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
شورش کاشمیری یاد آتے ہیں۔ وہ کوہسار صفت شخص تھا۔ دنیائے صحافت کے لئے بہادری کی علامت تھا۔ عشق رسولؐ کے کئی چراغ اس کے دل میں جلتے تھے۔ اس روشنی میں شورش کاشمیری کے یہ اشعار دیکھیں:
میرے ہمراہی کریں گے اس قدر جانیں نثار
معرفت کی ذرے ذرے کو دعا دینی پڑے
اتنا کر دوں گا میں مائوں کی محبت کو بلند
دل کے ٹکڑوں کو شہادت کی دعا دینا پڑے