نواز شریف اردو میں تقریر کرتے ہیں تو لوگ انجوائے کرتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی لطیفہ بھی سنا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سیاسی بات میں کرارا پن لے آتے ہیں مگر انہیں ان دنوں انگریزی میں تقریر کرنے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ انہیں انگریزی بولنا خوب آتی ہے۔ وہ انگریزی مزا لے کے بولتے ہیں مگر لوگوں کو مزا نہیں آتا۔ انہیں کچھ پلے پڑے گا تو کچھ ہو گا۔ شہباز شریف کا انداز فطری ہے مگر محنت کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔ وہ ایک محبوب اسلوب بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں بھی انگریزی سمجھنے والے کم ہی ہوں گے۔ جہاں انگریزی بولنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو تو ٹھیک ہے۔ نواز شریف اردو میں بات کریں تو مزا آتا ہے۔ وہ مزیدار بات کرکے خود بھی ہنستے ہیں انجوائے کرتے ہیں۔ میں کوئی موازنہ نہیں کر رہا ہوں۔ کچھ لوگ موازنے کو خواہ مخواہ مقابلہ بنا لیتے ہیں۔ دونوں بھائی نواز شریف اور شہباز شریف ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور اعتبار کرتے ہیں۔ اعتبار کے ساتھ ہی پیار جڑا ہوا ہے۔ حمزہ شہباز ہمیشہ نواز شریف کے لئے ’’میرا قائد‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں بھی یہ بات دوستانہ ماحول میں کر رہا ہوں کہ دونوں بھائیوں کا انداز تقریر میں اپنا اپنا ہے۔ اب اس میں اپنائیت بھی شامل ہو گئی ہے۔ مگر مجھے شہباز شریف کی تقریر انگریزی میں اچھی لگتی ہے۔ وہ اردو بھی بہت دلفریب انداز میں بولتے ہیں۔ ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہیں جیسے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
نواز شریف انگریزی میں ایسی بات نہیں کرتے جسے لوگ انجوائے کریں۔ اردو میں بولتے ہوئے خود بھی خوش ہوتے ہیں تو لوگ بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کے آغاز میں وہ بہت سنجیدہ تھے۔ کچھ خفا خفا لگتے تھے۔ اب کشادگی آئی ہے تو شگفتگی بھی لوٹ آئی ہے۔ وہ محکمہ نادرہ کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ کہنے لگے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ میں کسی خاتون نادرہ کا ذکر نہیں کر رہا یہ تو کسی کے لئے خوش فہمی کی بات ہو گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحافی اور دوسرے لوگ ان کے پیچھے لگ جائیں۔ کل ہی عمران خان کی انگوٹھی کی بات سکینڈل بنتے بنتے رہ گئی؟ہو نہ ہو کہیں نادرہ نام کی کوئی عورت ضرور ہو گی۔ نواز شریف کے منہ سے یہ بات اتفاقاً نہ نکلی ہوگی۔ مگر خواہ مخواہ کوئی بات کا بتنگڑ نہ بنائے۔ میرے گھر میں بھی اس حوالے سے بات بہت بڑھ گئی تھی؟ نادرہ نام کی ساری عورتیں ہوشیار رہیں۔
نواز شریف اپنی تقریروں میں اسحاق ڈار کا ذکر بھی ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہیں۔ ڈاروں وچھڑی کونج یاد آ جاتی ہے۔ اسحاق ڈار کے ساتھ سرسری سی جان پہچان ہے۔ نجانے لوگوں نے انہیں اسحاق ڈالر کیوں کہنا شروع کر دیا ہے؟ ایک دوسرے وزیر جنرل (ر) عبدالقادر ہیں۔ انہوں نے بے دھیانے میں یا بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو جعلی وزیر کہہ دیا۔ وہ سوالات کا جواب نہ دیتے مگر بوکھلا تو نہ جاتے۔ ہمارے وزراء پارلیمنٹ آتے ہیں جیسے وزارت کے دفتر میں آتے ہیں۔ سوالوں کا جواب دینا ایک وزیر کے ’’شایان شان‘‘ تو نہیں ہے؟ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تصحیح کی جنرل صاحب! آپ جعلی وزیر نہیں ہیں۔ عارضی وزیر ہیں۔ ایاز صادق کی خدمت میں گزارش ہے کہ وزیر شذیر اپنے آپ کو جعلی سمجھ لیں گے مگر عارضی نہیں سمجھیں گے۔
جنرل (ر) کیانی کے حوالے سے میں نے مخالفانہ میڈیا مہم کے لئے محسوس کیا کہ کہیں فوج کے خلاف سازش ہی نہ ہو۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور کراچی میں شہر کی رونقیں بحال کرنے کی کارروائی کے خلاف پیپلز پارٹی نے جو پروپیگنڈا مہم چلائی ہو یہ اس کا حصہ ہی نہ ہو۔ مگر اسلام آباد سے میرے بھائی میجر (ر) نذیر نے جنرل کیانی کے خلاف پورا دستاویزی پروگرام سنا دیا۔ برادر کالم نگار فضل اعوان نے بھی ایک پوری فہرست باتوں ہی باتوں میں جنرل (ر) کیانی کے خلاف نکال کر میرے سامنے رکھ دی شکر ہے کہ دونوں نے میرے کالم کو متوازن قرار دیا۔ توفیق بٹ کے ایک دلیرانہ کالم کا یہ جملہ سنیں۔ ایک عہد میں زرداری جیسا صدر، نااہل گیلانی جیسا وزیراعظم، افتخار چودھری جیسا چیف جسٹس اور جنرل کیانی جیسا آرمی چیف ہو میں حیران ہوں کہ پاکستان بچ کیسے گیا۔ اللہ اس ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے گا۔ ہر لٹیرا وڈیرا تھک گیا۔ پاکستان زندہ باد۔
جی ایچ کیو راولپنڈی میں دہشت گردی پر جنرل (ر) کیانی کی خاموشی اور کوئی عملی ردعمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ ملٹری اکیڈمی کے بالکل قریب ایبٹ آباد میں امریکیوں کی ایک مکمل منصوبے کے تحت کارروائی کے حوالے سے بھی کچھ نہ ہوا۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے امریکہ کے حق میں ایک مشہور امریکی اخبار میں تعریفی مضمون لکھا۔ نااہل ہو چکے وزیراعظم گیلانی نے مبارکباد کا بیان دیا۔ جنرل (ر) کیانی بدستور خاموش رہے۔ انہوں نے شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن نہ کیا شاید انہیں ’’صدر‘‘ زرداری نے منع کر دیا ہو۔ دہشت گردی کی ہولناکیاں بڑھتی گئیں۔ اب دہشت گردی خاصی حد تک تھم گئی ہے۔ کرپشن بھی دہشت گردی کی ذیل میں آتی ہے۔ کراچی میں کرپشن کے خاتمے کے لئے آغاز کیا گیا ہے۔ ایک ڈاکٹر عاصم کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری بھی چلا اٹھے ہیں۔ ابھی تو کئی مریض باقی ہیں۔ مرض ختم ہو رہا ہے مگر مریض باقی ہیں؟
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے خلاف کئی قسم کے مقدمات ریٹائرمنٹ کے بعد چلائے جاتے ہیں۔ تو کیا اب جرنیلوں کے خلاف بھی یہی طریق کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کے لئے جنرل (ر) کیانی سے موزوں شخص کوئی نہ تھا۔ یہ ابتدا ہے تو انتہا کیا ہو گی۔ مجھے بار بار دہرایا ہوا اپنا جملہ یاد آتا ہے۔ میں کیا کروں کہ سیاسی اور عسکری صورتحال بدلتی ہی نہیں۔ نہ حالات بدلتے ہیں تو پھر تاریخ کون بدلے گا؟ میں تو اپنا جملہ نہیں بدل سکا۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔
جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی اور سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔ دونوں ناکام ہوئے اور بدنام بھی ہوئے۔ جرنیل جہاں بھی ہو، جرنیل رہے اور سیاستدان جیسا بھی ہو، وہ سیاستدان رہے تو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت میں فاصلے نہ بڑھیں۔ فاصلے نہ بڑھنے دینے کے لئے کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ کون کرے گا یہ فیصلہ؟ فیصلہ ہو گا یا کب ہو گا مگر تقریر تو قومی زبان اردو میں کرنا چاہئے۔
شہباز شریف شعر بھی تقریر میں پڑھتے ہیں۔ لوگوں میں حبیب جالب کا یہ مصرعہ شہباز شریف نے قبول کیا ہے۔ ’’میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا‘‘ شکر ہے وہ یہ نہیں پڑھتے۔ ’’میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا‘‘ وہ بہت کچھ جانتے ہیں مگر ماننا جاننے سے بہرحال بہتر اور آسان ہے۔ ہم بہت کچھ بغیر جانے ہوئے مانتے ہیں۔ یہی ایمان بالغیب ہے۔ یہ ایمان لانے سے آگے کی چیز ہے۔ امان ایمان میں ہے۔
پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کے ایوارڈ دینے کی تقریب پر الگ کالم لکھوں گا۔ اپوزیشن والے بھی پڑھیں اور سوچیں۔ وہاں بچوں نے خادم پنجاب کو خادم پاکستان بنا دیا۔ یہاں سارے صوبوں کے طلبہ و طالبات کو بلایا گیا تھا۔ پورے ملک سے بہت قابل اور محنتی طلبہ و طالبات آئے ہوئے تھے۔ شہباز شریف سے ایوارڈ لیتے ہوئے ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ تعلیمی میدان میں یہ ایک نادر معرکے کی طرح ہے۔ معروف آرٹسٹ نورالحسن نے کمپیرنگ کے اعلیٰ معیار کا مظاہرہ کیا اور تقریب میں جان ڈال دی۔ بچوں نے شہباز شریف کی دوستانہ بے تکلفی کو پسند کیا۔ انہوں نے محفل میں ایک شعر بھی پڑھا۔ یہ ان کی سوچ کی کشادگی کا اظہار کرتا ہے۔ تنقید برائے تنقید کرنے والے بھی غور کریں
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا