اختلافِ رائے اور نفاذِ شریعت ؟

ماشاء اللہ اس مملکت خداداد میں دو مدعوں پر حشر برپا کیا جا سکتا ہے۔ حشر برپا کرنے میں زیادہ زور نہیں لگانا پڑتا کیونکہ ہر بندہ‘ وہ جو کچھ بھی ہے۔ اپنے تئیں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ اگر آپ سوشل میڈیا کے مباحثوں میں تابڑ توڑ سوالوں کے نرغے میں پھنسے کسی بھی بے بس کو سنیں گے تو یوں لگے گا کہ سیاست کی ساری سوجھ بوجھ تو بس اینکروں کے پاس ہی ہے اور اندھیرے سویرے کی ساری پہچان صرف یہی رکھتے ہیں۔ ایک دن انہیں سیاست کی کرسی پر کیوں نہیں بٹھا دیتے۔ اگر ساری دانائی ان کے پاس ہے اور یہ زیادہ جانتے ہیں۔

یہی حال شریعت کی باتیں کرنے والوں کا ہوتا ہے۔
جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو پاکستان ایک تھا اور سارے ایک ہی بات کرتے تھے۔ کبھی کسی قومی ایشو کو اختلافی ایشو نہیں بنایا جاتا تھا‘ کہیں بھی محرومیوں کی بات نہیں ہوتی تھی۔ ہر معاملے میں پاکستان کو اولیت دی جاتی تھی…
اب جب ایک تیسری نسل جوان ہو رہی ہے تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے نکل آئے ہیں۔ شاید یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان‘ تدبیر پاکستان یا تعمیر پاکستان میں کوئی ہاتھ نہیں بٹایا ان کو بنا بنایا پاکستان مل گیا ہے۔ اسلئے یہ ہمہ وقت پاکستان کو ڈراتے رہتے ہیں یا احسان جتاتے رہتے ہیں۔
شاید لمبی لمبی کرسیاں ہم نے بونوں کو دے دی ہیں۔
اختلاف رائے کا حق ہر ایک کو ہوتا ہے۔ سماج سے لے کر سیاست تک‘ خاندانی معاملات سے لے کر عدالتی معاملات تک‘ مگر اختلاف کو نزع کا رنگ دینا۔ مسئلے کو لاینحل بنا دینا۔ جنگ و جدل پر اتر آنا‘ کسی بھی ملک اور معاشرے کا چلن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں قومی ایشوز پر خلوص نیت سے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا سکتی ایک شخص کہیں سے بھی اٹھے پورے معاملے کو تنکا تنکا کر کے بیٹھ جاتا ہے… اور پھر باقی کا قیمتی وقت اس کے تنکے چننے میں ہی بیت جاتا ہے۔
یہ ایک خواہ مخواہ کی بحث ہے۔ ایسی بحث کو کبھی صوبائیت کا تڑکا لگایا جاتا ہے‘ کبھی محرومیوں کا پنکھا جھلا جاتا ہے‘ کبھی مخالف لیڈروں کی پگڑی اچھالی جاتی ہے۔
اس وقت ہمیں بے حد دکھ ہوتا ہے جب اچانک کسی طرف سے نفاذ شریعت کی صدا بلند ہوتی ہے اور پھر وہ صدا اپنی من مانی بات منوا کر چپ ہو جاتی ہے…
خدا کے واسطے شریعت کی بات کو مذاق نہ بنایا کرو۔ پہلے ہر مسلمان اپنے دل پر شریعت کا نفاذ کرے۔ اپنے گھروں پر شریعت کا نفاذ کرے اپنی اولادوں کی تربیت شرع شریعت کے مطابق کرے۔ اپنے ذمے کے حقوق العباد شرع کے مطابق ادا کرے۔ اپنا ماحول شرع کے مطابق بنائے۔ اس ملک میں کوئی مسلمان مرد یا مسلمان عورت شریعت کے نفاذ کے مخالف نہیں ہیں۔ جب ایمان ہی یہی ہے تو پھر انکار کی کیا گنجائش ہے۔ عرض ہے تو صرف اتنی کہ جو لوگ گاہے گاہے کسی کچھار سے نکل کر یہ نعرہ لگاتے ہیں… ان کا مقصد کیا ہے آخر…؟
پھر اس قسم کی بحث سوشل میڈیا پر چل نکلتی ہے اور ایسے نکتے پیش کئے جاتے ہیں جن میں صرف تک بندی ہوتی ہے…
ہر اینٹ تو تعمیرِ حرم کے نہیں لائق
ہر وضع کے پتھر کو صنم کہہ نہیں سکتے!
پہلے ہر کوئی سچ بولے…
پھر ہر کوئی انصاف کرے…
اس کے بعد سب کو دل سے معاف کرے…
ہے اس ملک میں معاف کرنے کی رسم…؟ کیا انتقام سے کوئی باز آیا۔ کیا کسی نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں…؟
کیا پاکستان کے علاقے میں کسی نے تکلیفیں برداشت کیں۔
ہم سب نے‘ دل کے اندر غصہ‘ کینہ‘ بدلہ‘ غرور اور ہٹ دھرمی کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر رکھا ہے۔ موقع دیکھتے ہیں اور اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ہم مسجدوں کے اندر‘ اداروں کے اندر‘ درسگاہوں کے اندر بھی اسی قسم ک جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ہر معاملے کو ایک گورکھ دھندہ بنا دینے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ جہاں ہم بیٹھے ہیں اور جس حیثیت میں بھی بیٹھے ہیں۔ پہلے اس جگہ کو تعصب اور ناانصافی سے پاک صاف کرنا ضروری ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ تو دل کی صفائی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ہم نے بھی ایک دنیا دیکھ رکھی ہے۔ مگر کسی ملک کے اندر قومی ایشوز کو اس طرح مخالفین کے ہاتھوں بکھرتے نہیں دیکھا۔ کسی ملک کے سوشل میڈیا پر کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی آدمی اپنے ملک کو برا بھلا نہیں کہتا۔ ملک کی سالمیت اور استحکام کا سب احترام کرتے ہیں۔ یہاں لوگوں سے اگلوایا جاتا ہے کہ وہ کچھ ایسا ویسا ضرور کہیں…
بڑا آدمی وہ نہیں ہوتا جو صرف سیاسی رتبہ حاصل کر کے بڑی بڑی باتیں کرے۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جہاں بھی بیٹھا ہو اس کی بڑائی نکل نکل کر اعلان کر رہی ہو۔ ہمارے ہاں عدم برداشت اور نہ معاف کرنے کی رسم سیاست کے ذریعے آئی۔ اب سیاست ہی کے ذمہ ہے کہ وہ ملکی روایات کو واپس لوٹائے۔
کہتے ہیں کہ دشمن اور قرض کو کبھی بڑا نہ ہونے دو…
ایک ملک میں رہتے ہوئے مذہب اور ملک کے نام پر دشمنی بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ سارا پاکستان ہی سارا پاکستان ہے…
اس پاکستان کے اندر میں میں کی گنجائش نہیں ہے۔
اور نئی نسل جو ابھر رہی ہے وطن پرست بھی ہے اور اسلام پسند بھی ہے…
وہ کھرے کھوٹے کو الگ کر سکتی ہے؟

ای پیپر دی نیشن