ازخود نوٹس چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے ہڑتالیں ہوں یا جوتے پڑیں انصاف دیتے رہیں گے : جسٹس ثاقب

Jan 17, 2016

لاہور (وقائع نگار خصوصی) قائم مقام چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہڑتالیں ہوں یا ججوں کو جوتے مارے جائیں، خواتین ججوں کی تذلیل کی جائے یا عدالتوں کی تالا بندیاں ہوں، عدلیہ انصاف کی فراہمی میں پیچھے نہیں رہے گی کیونکہ ہم نے انصاف دینے کی قسم کھائی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے زیراہتمام ایک روزہ کانفرنس میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سول جج کی توہین پوری عدلیہ کی توہین تصور ہوگی۔ بارز ایسوسی ایشنز ایسے وکلا کا احتساب کریں۔ وہ لوگ جو عدلیہ کی تذلیل پر اترتے ہیں وہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ ادارے کو قائم دائم رکھنے کیلئے ہر اقدام کرینگے۔ بہت جلد پاکستان کو ایک متوازن عدلیہ دیں گے۔ ہم سلطان کے قاضی نہیں ہیں۔ ہم قانون کے تابع ہیں۔ قانون ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی سے فیصلے کریں۔ ہم نئی نسل کو اچھا دیکر جائیں گے یا پھر اچھا چھوڑ کر جائیں گے۔ جب تک ہم اپنے گھر سے احتساب شروع نہیں کریں گے، دوسروں کا احتساب کیسے کر سکتے ہیں۔ نااہل، جانبدار اور کرپٹ جج نہیں بن سکتا۔ قانون کی بالادستی پر قائم رہنے والی قومیں اور ادارے ہی ترقی کرتے ہیں۔ عدالتی نظام میں سب سے اہم عہدہ جج ہے۔ اسکی تقرری کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ سے لیکر نچلی سطح تک ججوں کی تقرری کا معیار سخت رکھنا پڑیگا تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ سپریم کورٹ کے جج اور سول جج میں کوئی فرق نہیں بلکہ نچلی سطح پر ججوں پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ آج عوام کا عدلیہ پر اعتبار نہیں رہا۔ اس بے اعتباری کی ذمہ دار خود عدلیہ ہے، ہمیں یہ بے اعتباری ختم کرنی ہوگی، عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، جو جج بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے۔ ازخود نوٹسز کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہئے بلکہ سپریم کورٹ کے رولز میں مناسب ترمیم کرکے ایسا فورم قائم ہونا چاہئے جو تجویز کرے کس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جائے۔ ایسا نہیں کہ رات کو خواب آئے اور صبح ازخود نوٹس لے لیا جائے۔ نہیں مانتا کہ 1970ءکے بعد کسی جج نے مس کنڈکٹ نہیں کیا۔ جج پولیس والوں کی تنزلی تو کردیتے ہیں مگر جب خود بنیادی حقوق کو تحفظ نہیں دیتے تو انکا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ جب عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی ملے گی تو وہ ایک طاقت بن جائیں گے جس کی مثال عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہے مگر افسوس کہ ہم اس طاقت کو سنبھال نہیں پائے۔ تبھی آج بہت سے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہائیکورٹ کے جج رٹ کے دائرہ اختیار میں بھی بہت کچھ کردیتے ہیں جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ کے جج کا ایسا ہی ایک فیصلہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ جج کا منصب دوسرے پروفیشن سے بلند ہے۔ ججز کو عوامی رائے کی بجائے قانون کی بنیاد پر فیصلے دینے چاہئیں۔ بار کے تعاون کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں۔لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ انصاف کی فوری فراہمی کیلئے آئندہ پانچ سال کی پالیسی بنانے کیلئے بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں، آئینی ماہرین اور ججز پر مشتمل تھنک ٹینک بنایا جائے۔ عدلیہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو دلیل کی بنیاد پر طاقتور سے لیکر کمزور کو حق دیتا ہے۔ عدلیہ میں احتساب اور شفافیت لانا ہو گی۔ یہ دیکھنا پڑیگا کہ نااہل اور بدکردار جج رہ سکتا ہے یا نہیں جس کی اے سی آر میں کرپٹ لکھا ہے وہ کیسے جج رہ سکتا ہے۔ ہمارے دن کا 50 فیصد حصہ وکلاء کے مسائل سننے اور حل کرنے میں گزر جاتا ہے، کافی چائے پیتے ہیں مگر مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے، صبح جج کو جوتا مارتے ہیں اور شام کو بار کا صدر معافی مانگنے آ جاتا ہے۔ یورپی یونین نے بھی اعتراض کیا کہ پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں 60 فیصد مقدمات وکلاءکی التوا کی درخواستوں اور 30 فیصد ہڑتالوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ یہ نظام غریب سائل کیلئے بنا تھا اور اسی کیلئے قائم رہنا چاہئے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جمہوریت اسی صورت پنپ سکتی ہے جب عوام کو جوڈیشل سسٹم پر اعتماد ہو۔ ریاست کے امور میں عدلیہ اور بار کی آزادی کی یکساں اہمیت ہے۔ کوئی وکیل پروفیشن میں مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا تو اس کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر سفارش سننے والے جج نہیں ہونگے تو سفارش کرنیوالے بھی نہیں ہونگے۔ ماضی کی نسبت سپریم کورٹ کا موجودہ دور بہتر ہے۔ ججز کے فیصلوں سے تعصب کی بو نہیں آنی چاہئے۔ بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں جعلی درخواست بازی روکنا وکلاءکا نہیں بلکہ ججز کا کام ہے۔ علاوہ ازیں کانفرنس میں منظور قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ بار ایسوسی ایشنز کی آزادی بھی ضروری ہے۔ وکالت کے پروفیشن میں ضابطے کی پابندی نہ کرنے والے وکلاءکیخلاف ایکشن لیا جائیگا۔ قانونی تعلیم کیلئے نصاب میں بہتری جبکہ جوڈیشل ٹریننگ پر بھرپور توجہ اور بنیادی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ عوام کے تنازعے حل کرنے کیلئے متبادل طریقہ کار بھی اپنایا جائیں۔ قرارداد میں جامع کیس مینجمنٹ سسٹم کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیگل سسٹم میں خواتین کی شمولیت کو زیادہ تعداد میں یقینی بنایا جائے۔
جسٹس ثاقب

مزیدخبریں