کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘ حکومت کو مزدور کا خیال آہی گیا۔ کاش ماضی میں بھی زبانی اعلانات کی بجائے عملی کام کئے گئے ہوتے تو آج پاکستان میں مزدور کا یہ حال نہ ہوتا‘ جس ملک میں جج کے گھر پر 10 سالہ طیبہ پر بدترین تشدد کیا جائے جو منصف اپنے گھرپر چائلڈ لیبر کو فروغ دے اس سے کوئی مزدور کیاانصاف مانگے۔ سوئٹ ہوم میں طیبہ کی زندگی کا نیاباب شروع ہوگیا ہے.... وہ اسٹوڈنٹ بن گئی ہے.... کتابیں مل گئی ہیں.... نئی سہیلیاں بھی ساتھ کھیلنے لگی ہیں.... یہ سب کچھ ایک درد ناک اورتکلیف دہ پرتشدد واقعہ کے بغیر سب بچوں کو مل جائے تو وہ دن ہوگا جب ہم کہہ سکیں گے ”بدل گیا ہے پاکستان“.... ابھی تو تشدد ہوتا ہے‘ میڈیا میں رسائی مل جائے‘ شور مچ جائے اورچیف جسٹس سوموٹو نوٹس لے لیں تو وہ سب کچھ شروع ہوجاتا ہے جو ننھی طیبہ کے ساتھ ہورہا ہے‘ ورنہ کتنی ہی افسوسناک کربناک اورشرمناک کہانیاں ہمارے ملک میں بکھری پڑی ہیں‘ گڈانی کی شب بریکنگ انڈسٹری نہ جانے کتنے مزدوروں‘ محنت کشوں کوزندہ نگل چکی ہے‘ بے درپے تین جہازوں میں خوفناک آتشزدگی اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے واقعات سامنے آگئے تو ہم وطنوں کو پتہ چلا یہاں بھی بہت گڑ بڑ ہے اور انتہائی غریب اور ضرورت مند مزدور محنت کش گمنامی میں زندگی کی بازی ہار رہا ہے‘ کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔گڈانی شپ بریکنگ کے حادثات میں مرنے والوں کاریکارڈ کو ائف تک درست طریقے سے عوام کے سامنے نہیں آسکے۔ کئی بنگالی مزدور محنت کش بھی وہاں کام کرتے ہیں‘ ایک حادثہ میں کئی بنگالی مزدور بھی کام کرنے والوں میں شامل بتائے جاتے ہیں‘ لیکن ان کا شناختی کارڈ پاسپورٹ ریکارڈ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تک حقیقت کسی کو نہیں معلوم کہ مرنے والے کتنے تھے‘ کون تھے۔ دوسرے حادثے میں مرنے والے پانچ مزدوروںکوساتھی مزدوروں نے کراچی سے پشاور اپنی مدد آپ کے تحت میت بھیجی اورشکوہ کیا کہ حکومت اور شپ بریکنگ ایسوسی ایشن نے کوئی مدد نہیں کی۔ دوسری طرف مزدورتنظیمیں شور مچا رہی ہیں‘ بڑے بڑے اجلاس کرکے خبریں اور تصویریں چھپوا رہی ہیں اورٹی وی چینلز پر پبلسٹی حاصل کی جارہی ہے لیکن مزدور کو کوئی پوچھ نہیں رہا‘ ان کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہے۔ ایک قیامت برپا ہوچکی ہے‘ گھر کا واحد کمانے والا چلا گیا۔ اس کے لواحقین کے سرپر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہاں ہیں‘ مخیر حضرات اور این جی اوز چپ ہیں۔ شپ بریکنگ ایسوسی ایشن کوصرف ا پنے لوگوں کی سلامتی‘ مقدمات سے جان چھڑانے اورکاروبار جاری رکھنے کی اجازت سے مطلب ہے‘ اس کام کے لئے وہ سیاستدانوں‘ سرکاری افسران‘ پولیس‘ متعلقہ اداروں حتیٰ کہ میڈیا کو بھی خوش رکھنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں کرتے تو صرف مزدور کی سیفٹی یقینی بنانے والے اقدامات نہیں کئے جاتے۔
ان حالات میں حکومت سندھ کے محکمہ محنت نے پہلی مرتبہ دو روزہ بین الاقوامی سہ فریقی لیبر کانفرنس 24 اور 25 جنوری کومنعقد کرانے کا اعلان کیا ہے جو نہایت خوش آئند ہے ۔ مزدور کانفرنس کے آئیڈیا اور اس کے انعقاد کوبھر پور اور موثر بنانے کے لئے تمام تر اقدامات اور کوششوں کا سہرا مشیر محنت سینیٹر سعید غنی اور صوبائی سیکرٹری لیبر عبدالرشید سولنگی کے سر جاتا ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے ان دونوں کی لگن دلچسپی اور توجہ کی بدولت پورا محکمہ محنت سندھ پوری تندہی کے ساتھ عالمی مزدور کانفرنس کی شاندار کامیابی کے لئے دن رات محنت کرتا نظر آتا ہے ایڈیشنل سیکرٹری لیبر شاہ محمد شاہ‘ کمشنر سیسی اور وائس کمشنر سیسی آصف میمن سب سے زیادہ متحرک اور فعال افسران ہیں۔ جنہوں نے محکمہ محنت کی کارکردی میں نمایاں بہتری لانے اور مزدوروں کے لئے ضروری قانون سازی کے مراحل طے کرنے سے لے کرعملی طورپر زمینی حقائق میں تبدیلی اور بہتری لانے میں اپنا بھر پور کردار اداکیا ہے‘ جسے ہر سطح پر تسلیم کیاجاتا ہے اور سراہا بھی جارہا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے محنت و انسانی وسائل سینیٹر سعید غنی صوبے کے محنت کشوں کو ان کے جائز حقوق دلانے اورعالمی سطح پر رائج قوانین کو صوبہ سندھ میں متعارف کرانے کے لئے کوشاں ہیں اور یہ بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کڑی ہے۔
سیکرٹری محنت سندھ عبدالرشید سولنگی کے مطابق دوروزہ عالمی مزدور کانفرنس کے دوران سندھ میں رائج لیبر قوانین کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ محکمہ محنت کے مختلف اداروں کے تحت لیبر انسپکشن کا طریقہ کار‘ سندھ سوشل سیکیورٹی کے تحت محنت کشوں اور ان کے لواحقین کو دی جانے والی طبی و مالی سہولیات اوردیگر اداروں کے تحت محنت کشوں اور ان کے ورثاءکو حاصل فوائد کے علاوہ مختلف لیبرپیکیجز پر غور کرنے کے بعد سفارشات مرتب کی جائیں گی‘ جن کی روشنی میں لیبر قوانین میں تبدیلی کی جائے گی۔
ادھر مزدوروںمحنت کشوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرنے والے مزدور رہنما کرامت علی‘ حبیب جنیدی‘ شفیق غوری‘ میر ذوالفقار‘ فرحت پروین نے ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں ایک جج کے گھرمیں کام کرنے والی ایک کمسن بچی کے اوپر بیہمانہ تشدد کے واقعے کا ازخود نوٹس لینے پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایک کم سن گھریلو ملازمہ بچی کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اقدام کئے ہیں‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم چیف جسٹس سے گزارش کرتے ہیں کہ ملک میںرائج بچوں کی ملازمت اور ان سے مشقت لینے کے خلاف اور دیگر مزدور خواتین پر عملدرآمد کی صورت حال کا بھی جائزہ لیں۔
یہ بات قابل ستائش ہے کہ سعید غنی کی خود مزدور رہنما بھی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف خود کو محکمہ محنت کی کرپشن اور کرپٹ مافیا سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے بلکہ اپنے محکمے اور ذیلی اداروں میں بھی کرپشن کے خلاف بھر پورمہم چلا رکھی ہے ان سے پہلے والے دورکے مشیر محنت اور اس کے فرنٹ مین سے ہرشخص تنگ تھا اورافسران کی بھی بے عزتی کی جاتی تھی‘ یہ باتیں سب جانتے ہیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ بہت سے واقعات ہیں جن پر اب تک نیب‘ اینٹی کرپشن ا ور دیگر اداروں کو نوٹس لے لینا چاہئے تھا لیکن خاموشی حیران کن ہے۔ البتہ یہ بات تسلی بخش ہے کہ سعید غنی کے دور میںمحکمہ محنت کے افسران کی عزت بھی ہے‘ احترام بھی ہے اوران کو فری ہینڈ بھی دیاگیاہے جس سے محکمے کی کارکردگی اور نتائج میں نمایاں بہتری نظر آرہی ہے۔