جب ملک میں صنعتی ترقی کا پہیہ سست رفتاری کا شکار ہو تو برآمدات میں غیرمعمولی کمی فطری امر ہے۔ برآمدات میں کمی ہوگی تو زرمبادلہ کے ذخائر میں اسی تناسب سے کمی آنا بھی عین فطری امر ہے۔ زرمبادلہ کی کمی بالآخر ہمیں قرضے لینے کیلئے آئی ایم ایف کا دست نگر ہونے کا راستہ دکھاتی ہے اور ظاہر ہے مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرضے دیتے ہیں اور ان قرضوں کا استعمال بھی اگر عقلی تقاضوں سے بالا ہو تو ملکی معیشت کا حال وہی ہوتا ہے جو پاکستان جیسے ملک کی کل آبادی کے نصف سے زیادہ غریب اور مفلوک الحال عوام کے حشر سے نظر آرہا ہے۔1971ء سے لیکر بیرونی ممالک میں کام کرنیوالے لاکھوں محنت کش پاکستانیوں کے ترسیلات زر سے اگرچہ اچھی خاصی مقدار میں زرمبادلہ حاصل ہو رہا ہے مگر نہ تو یہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے کافی ہے اور نہ اس کا استعمال ملک میں صنعتی فروغ کیلئے ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ سرمایہ زیادہ تر رئیل سٹیٹ کے شعبے میں لگ رہا ہے اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کی زیادہ تر توجہ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے گردونواح میں لگژری ہائوسنگ سوسا ئٹیوں کی تعمیر پر مرکوز ہے اور ظاہر ہے ان ہائوسنگ سوسائٹیوں سے کسی قسم کی برآمدات تو ممکن نہیں البتہ ان کو لگژری ٹچ دینے کیلئے درآمدات میں اضافے کے امکانات ضرور روشن ہو سکتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سمندر پار پاکستانیوں نے بڑی مقدار میں پیسہ بھجوایا جس کے نتیجے میں ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔مگر وہ پیسہ بھی صنعتی شعبہ کی بجائے اندھادھند رئیل سٹیٹ میں لگ گیا۔ تب سے بڑے شہروں کے نواح میں بے تحاشہ چھوٹے مالکان قبضہ مافیا، لینڈ مافیا اور لینڈ گریبرز جیسے مکروہ گروہوں کے ظلم کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ ستم بالائے ستم نواز حکومت کے پہلے دور میں اس وقت کی ربڑ سٹیمپ اسمبلی نے ’’پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء ،، کے نام سے جو قانون بنایا اس نے سرمائے کے بیرون ملک انخلاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اب کرپشن،کرائم اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقوم کی بیرون ملک منتقلی میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی اور لامحالہ وائٹ کالر چوروں نے اس کا دل کھول کر فائدہ اٹھایا اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ چار کی رو سے ملک یا ملک سے باہر رہنے والے تمام پاکستانیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں کسی بھی شکل میں فارن ایکسچینج رکھیں، خرید و فروخت کریں، ملک میں لائیں یا ملک سے باہر منتقل کریں انہیں اس مقصد کیلئے کسی بھی سٹیج پر فارن کرنسی ڈیکلیئریشن کی ضرورت نہ ہو گی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی انہیں پوچھ سکتا ہے۔ اس قانون کی دفعہ پانچ کے تحت ملک یا ملک سے باہر رہنے والے ان پاکستانیوں کو جو ملک کے اندر یا کہیں بھی فارن کرنسی اکائونٹ رکھتے ہوں، انہیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا انہیں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ یا کسی دیگر ٹیکسیشن اتھارٹی کی جانب سے فارن کرنسی اکائونٹ کے ذرائع کے متعلق نہیں پوچھا جائیگا نیز فارن کرنسی اکائونٹ میں جمع شدہ رقوم ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس، کٹوتی زکٰوۃ سے مستثنیٰ ہونگی اور بنک ایسے اکائونٹ کی ٹرانزیکشنز کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے کے پابند ہونگے حتیٰ کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کو بھی ایسے اکائونٹ سے رقوم نکلوانے یا اکائونٹ میں جمع کروانے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ دفعہ 9 کیمطابق تمام بنک ایسے اکائونٹس کی ٹرانزیکشنز کو خفیہ رکھنے کے پابند ہیں۔ مشرف دور میں فارن کرنسی اکائونٹس (پروٹیکشن) آرڈیننس 2001ء کے ذریعے ایسے اکائونٹس کو مزید تحفظ دے دیا گیا جو تاحال موجود ہے۔ اس آرڈیننس کی دفعہ تین کی رو سے فارن کرنسی اکائونٹ ہولڈر کو اکائونٹ آپریٹ کرنے، فارن کرنسی ملک میں لانے ملک سے باہر لیجانے کا مکمل حق ہوگا اُسے اس حق سے کسی صورت محروم نہیں کیا جائیگا۔ اس قانون سے پہلے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو ایسے اکائونٹس کی ٹرانزیکشنز میں مداخلت کا اختیار حاصل تھا اور کسی کو غیرمحدود استثنیٰ حاصل نہیں تھا مگر اس قانون کے ذریعے مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔ بادی النظر میں اس طرح دئیے جانیوالے استثنیٰ کی منطق سمجھ سے باہر ہے ۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اس اقدام کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کی راہیں ہموار کرنا تھا تو جب روز روشن کی طرح بندے بندے پر واضح ہو چکا ہے کہ اس سہولت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اُلٹا صنعتی مقاصد کی بجائے چور عناصر اس استثنیٰ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں ڈالرز بیرونی ممالک میں بھجواتے جا رہے ہیں تو پھر اسکے تدارک کی جانب توجہ نہ دینے کا کیا جواز ہے۔ آئندہ بھی ان وائٹ کالر کرائمز کی روک تھام کرنے کی بجائے من پسند قوانین کے ذریعے اگر ملکی سرمایہ ٹھکانے لگانے کیلئے چور دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں تو کرپشن اور بدعنوانی سے پیسہ بنانے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ممکن ہے نہ ملکی سرمائے کو بیرون ملک منتقل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ یوں آئندہ بھی وائٹ کالر چوروں کو اپنی بلیک منی انتہائی آسانی سے وائٹ کرنے کیلئے دستیاب سہولت کا فائدہ اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اگر منی لانڈرنگ اور کیپیٹل فلائٹ کی ناکہ بندی نہ کی گئی تو حکومت کی یہ پالیسی نہ صرف صنعت کشی بلکہ عوام دشمنی کے مترادف ہوگی۔
منی لانڈرنگ اور کیپٹل فلائیٹ کا چور دروازہ
Jan 17, 2017