سعودی عرب کی زیر قیادت 39 ملکوں کا عسکری اسلامی اتحاد پاکستان میں ایک بار پھر متنازعہ بنادیا گیا ہے حالانکہ سینٹ و قومی اسمبلی چند ہفتے پہلے سعودی حمایت کا اعلان کرچکی ہے۔ جنرل راحیل شریف کو اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی کی دعوت تو خود وزیراعظم محمد نواز شریف کے ساتھ ریاض جانے اور ساتھ ہونے کی وجہ سے مل چکی تھی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جب وہ سعودی حکومت کی دعوت پر ریاض گئے اور عسکری اسلامی فوج پر انکی خدمات کو حاصل کرنے کا مرحلہ ریاض میں ’’عبور‘‘ ہوا تو پاکستان میں اینکرپرنسز، کچھ دفاعی تجزیہ نگاروں، کچھ سیکولر اور لبرل اہل قلم اور دانشوروں نے نہایت ’’اوچھے‘‘ انداز میں سعودی عرب، اسلامی عسکری وجود اور جنرل راحیل شریف کیخلاف دل کھول کر نفرت، تعصب اور تنگ نظری کا اظہار کیا تھے ایک پروگرام میں ایٹنی سعودی اینکر پرسن (مبشر لقمان) نے ایک دوسرے لبرل ساتھی (قاضی سعید) کے ساتھ صدر جنرل پرویز مشرف عہد کے مشیر مالیات سلمان شاہ کو بھی مدعو کیا۔ اس قدر تنقید متوقع عسکری اسلامی وجود پر ان دونوں اینکروں نے کی کہ زچ ہو کر سلمان شاہ کہہ گئے، پنڈ و سیا نئی تے اچکے پہلے آگئے نے) یعنی ’’ابھی دیہات تو آباد بھی نہیں ہوا مگر اسکو… لوٹنے والے بدمعاش فوراً پہنچ گئے ہیں‘‘ ہمیں اپنے دانشوروں اور اینکروں کی کج فکر ذہنی ساخت کو سمجھنے میں سلمان شاہ (وہ جنرل آصف نواز مرحوم کے داماد ہیں کی برجستگی نے بہت لطف دیا ہے جنرل راحیل شریف کا ’’قضیہ ‘‘ توخیر جدید ہے، اسلامی عسکری وجود بنانے کی ترغیب تو بقول حذیفہ رحمان مہاتیر محمد نے 2005ء میں دی تھی۔ شائد صدر طیب اردگان نے جب وہ ترکی کے وزیراعظم تھے نے بھی یہ ترغیب دی۔ مگر ہم نے 2001ء کے اردگرد یہی منصوبہ ایک کالم کی صورت میں لکھا اور لاہور آفس بھجوادیا تو جناب مجید نظامی اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس دے نے ہمارا لکھا ہوا اسلامی عسکری وجود کالم ادارتی صفحے پر شائع فرمایا تھا۔ ذرا سوچیں کہ ہم نے کب یہ نادر خیال سوچا، لکھا اور نوائے وقت نے شائع کیا تھا؟ ہمارے کالم میں کسی غیر عرب ملک کی شخصیت کو اسلامی عسکری وجو کا راہنما تجویز کیا گیا تھا ایران کی عالم و فاضل سعودی ایرانی مفاہمت کی داعی اور اصلاحی سیاست (Reformists) کے بہت بڑے ستون ڈاکٹر اکبر رفسنجانی ہاشمی کی وفات ہوئی ہے تو ولایت فقہیہ نظام ریاست پر ایران کے اندر سے الزام ہے کہ ڈاکٹر رفسنجانی کو تو ’’قتل‘‘ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رفسنجانی امام خمینی کے قافلے کے اہم راہنما تھے۔ صدر رہے اور دیگر اہم منصبوں پر بھی فائز رہے۔ وہ روحانی رہبر علی خامینانی کے ’’نقاد‘‘ تھے۔ یوں کہیں کہ انقلاب ایران میں در آئے جبر و اکراہ پر عقل مندی سے ’’توجہ‘‘ دلاتے تھے۔ صدر احمدی نژاد ایران کی اصلاحی ریاست کے ڈاکٹر رفسنجانی اور ڈاکٹر خاتمی کے بعد سخت گیر مذہبی جوشیلے طبقے کے نمائندے تھے۔ انکی صدارت کے دوسرے عہد میں بطور خاص سعودی عرب سے دشمنی کا راستہ اپنایا گیا تھا۔ لطف کی بات ہے کہ صدر احمدی نژاد جس قدر امریکہ و مغرب و اسرائیل کے دشمن بن کر سامنے آتے رہے اتنے ہی امریکی ایران خفیہ ایجنسیوں کے سرگرم تعلقات کا وجود بھی متحرک رہا تھا کیسا دلچسپ معاملہ ہے کہ ایران جس کو بزرگ شیطان کہتا رہا اور اسی شیطان کیساتھ مل مشرق وسطیٰ کی تشکیل جدید میں شیعہ ریاستوں کی تخلیق اور شیعہ حکومتوں کے حصول کے مرحلہ شوق عبور کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکا ہے۔ ولایت فقہیہ کا علی خامینائی عہد اس اعتبار سے نادر کردار پیش کرچکا ہے کہ کس طرح ماضی کے دشمن امریکہ کو اپنے ایجنڈے میں استعمال کرنا ہے۔ عرب ممالک میں ’’ایرانی مداخلت‘‘ جسکی شکایت سعودیہ، متحدہ عرب امارات، کویت و بحرین مسلسل کر تے رہے ہیں علی خامینائی ولایت فقہیہ کی وہ جارحانہ توسیع انقلاب جنگ ہے جس کا فخریہ ذکر ایران کے ایک اہم راہنما جو تہران ڈیفنس یونیورسٹی کے ریکٹر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کرچکے ہیں۔ انہوں نے عراق و ایران جنگ سے حاصل شدہ سبق کا ذکر کیا اور بہترین دفاع مخالفین پر پیشگی جارحانہ جنگی حملوں کو قرار دیا۔ سنی عرب ممالک میں ان کے بقول یہی ایرانی حکمت عملی کام کر رہی ہے۔ ہم نے تہران ڈیفنس یونیورسٹی کے شہہ دماغ کی کہی ہوئی بات کو یمن، شام، عراق، سوڈانی میں سچ کی صورت میں دیکھا ہے۔ وہ اپنے موقف کا برملا اظہار اور سنی حکومتوں میں عدم استحکام کے حصول کی فتح کا فخریہ تذکرہ اور اقرار کرتے ہیں۔ یقیناً ایران و عراق جنگ دونوں اطراف کی بداعتمادی کا نتیجہ تھی۔ اگر انقلاب ایران کو پڑوسی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے میں زبردستی برآمد نہ کیا جاتا تو ایران عراق جنگ ہر گز نہ ہوتی۔ بلکہ امام خمینی جس طرح شروع میں مولانا مودودی سے ملے اس سے سنی دنیا میں خوشی ہوئی مگر بعد ازاں یہ اسلامی انقلاب محض ملکی انقلاب میں تبدیل ہوا یہ بہت بڑی غلطی امام خمینی عہد میں ہوئی حالانکہ انقلابی ایران کے جس طرح مولانا مودودی، فکر سے تعلق رکھنے والوں سے عمدہ تعلقات تھے کچھ ایسے ہی مصر کی سنی اخوان المسلمین سے بھی تھے۔ امریکہ نے صدام حسین کو جنگ کروا کر استعمال کیا۔ پھر اپنی سفیر کے ذریعے صدام حسین کو شہہ دی کہ وہ کویت پر اپنا ’’حق‘‘ بتاتا رہتا ہے تو اسے حاصل کیوں نہیں کرتا؟ امریکی سفیر کی سازشی ترغیب نے بھی صدام حسین کو صدر بش سینئر کے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجیں اتار کر تیل اور سرزمینوں پر قبضے کا راستہ فراہم کیا۔ جونہی امریکی شہہ پر صدام نے کویت کو فتح کرنے کی غلطی کرلی۔ صدر بش سینئر نے کویت کی آزادی کے نام پر سعودی و بحرین وغیرہ میں اپنی فوجیں زبردستی اتاردیں۔ شاہ فہد اس جارحانہ امرکی آمد کو روک نہ سکے جبکہ روسی ایجنسیوں نے بعدازاں یہ ’’راز‘‘ فاش کردیا کہ صدام کے حوالے سے سعودی قیادت کو امریکہ نے جھوٹی کہانیاں سناکر خوفزدہ کیا اور اپنی فوج اتارنے کا راستہ حاصل کرلیا۔ ہم اس واقعہ کو امریکی سے شدہ حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں جس طرح صدام حسین کو امریکی سفیر خاتون شہہ دے کر کویت پر حملہ کروایا اور اپنی فوج لانے کا ایجنڈا حاصل کیا۔
پس تحریر: شیعہ اور اُبادی مسلک والا ہمارا پڑوسی اومان جو عملًا ایران کا دوست اور اتحادی ہے نے اسلامی عسکری وجود میں شمولیت حاصل کرلی ہے اور اومان اب عسکری وجود کا حصہ ہے۔