انسانوں سمیت بیشتر جاندار کئی طرح کی خوراک پر آسانی سے زندگی گزار لیتے ہیں، یعنی جو چیز دستیاب ہو اور انہیں لذیذ لگے وہ کھا لیتے ہیں۔مگر کچھ جاندار ایسے ہوتے ہیں جو مخصوص غذا سے ہٹ ہی نہیں سکتے اور ان میں سے چمگادڑوں کی تین اقسام بھی ہیں جو کہ خون پی کر ہی پلتی بڑھتی ہیں۔ان تین میں سے دو اقسام کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کسی بھی جاندار کے خون کو اپنی غذا کا ذریعہ بنالیتی ہے مگر تیسری ہیئری لیگ ویمپائر بیٹ کو صرف پرندوں کا خون چوسنے والا سمجھا جاتا تھا۔مگر اب اس کے بارے میں جو حقیقت سامنے آئی ہے اس نے سائنسدانوں کو دنگ اور عام لوگوں کو خوفزدہ کردیا ہے۔برازیل کی Universidade Federal de Pernambuco کی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ یہ چمگادڑیں اب انسانی خون کو اپنی غذا بنانے لگی ہیں جو کہ پہلے سائنسدانوں کو ممکن نہیں لگتا تھا۔تحقیق کے مطابق شمال مشرقی برازیل کے جنگلات میں انسانی آبادیاں بڑھنے اور درختوں کے کٹنے سمیت وہاں پرندوں کے شکار کی وجہ سے چمگادڑوں کو غذائی قلت کا سامنا تھا۔
اور اس کا حل انہوں نے انسانی خون کی شکل میں نکالا۔اس تحقیق کے دوران چمگادڑوں کے فضلے کی جانچ کرکے جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان کی غذا کیا ہے اور کیا وہ پالتو مویشیوں کا خون تو نہیں چوستیں۔مگر نتائج نے سائنسدانوں کو دنگ کردیا کیونکہ یہ معلوم ہوا کہ انسان اب ان کا نیا شکار ہیں۔محققین کا کہنا تھا ' یہ بہت زیادہ حیران کن ہے، کیونکہ یہ مانا جاتا تھا کہ یہ پرندے ممالیہ جانداروں کے خون کو غذا کے طور پر استعمال نہیں کرتے'۔صرف انسانی خون چوسنا ہی ڈرا دینے والا نہیں بلکہ یہ چمگادڑیں جان لیوا وائرس بھی اپنے شکار میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو کہ کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والے مرض ربیز جیسا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں شمال مشرقی برازیل میں ایک ہزار سے زائد افراد چمگادڑوں کے کاٹنے سے ربیز کے شکار ہوئے اور کم از کم 23 ہلاکتیں ہوئیں۔یہ تحقیق جریدے جرنل ایکتا Chiropterologica میں شائع ہوئی۔