قصاص یا بُغض نوازِ ؟

مگر یہ اِن شہداء کے لواحقین کی بدقسمتی کہ اِن تمام شخصیات نے اپنی اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کی نہ ہی آگے کرتے مگراپنی سیاسی ضروریات انہیں علامہ صاحب کے کنٹینر تک لے آئیں ہیں،اب دیکھئے سترہ جنوری یا اٹھارہ جنوری کو ان کی سیاسی ضرورت پوری ہوتیں ہیں یا اِس قصاص تحریک کا حشر بھی پیٹ اور پی ٹی آئی کی دھرنا تحریکوں جیسا ہوتا ہے ۔تازہ ترین ملکی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ’’ ہمیں‘‘ ملکی معاملات سے سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ، اگر کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ صرف اور صرف اقتدار کی کرُسی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تواِس وقت ہم ملک میں انتشار کی سیاست کی بجائے بھارتی آرمی چیف کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے متحد ہو کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ،ڈی جی آئی ایس پی آر بھارتی آرمی چیف کو اکیلے جواب نہ دے رہے ہوتے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی بھارتی چیف کو منہ توڑ جواب دے رہی ہوتیں ۔لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمیں کبھی دھرنا ، کبھی قصاص تو کبھی دیت تحریکوں کی بجائے اُس کامیاب و عظیم تحریک کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے آپس میں اتفاق و اتحاد کا مظاہر ہ کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں آج ہم ایک آزاد و خودمختارایٹمی ملک کے شہری کی حیثیت سے دُنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔یہاں ہمیں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا آج کا بیان اچھالگا جس میں انہوں نے علامہ صاحب سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری خیال رکھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عمران خان آپ کو استعمال کر کہ اپنا اُلو تو سیدھا کر لیں مگر انصاف کی بات ،باتوں ہی میں رہ جائے ۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن