وی آئی پی کلچر اورکرپشن کا خاتمہ ممکن ہے ؟

Jan 17, 2018

گذشتہ سے پیوستہ

پھرآہستہ آہستہ ہمارا ملک کرپٹ‘بدعنوان‘بددیانت لوگوں کے قبضے میںآ گیا جنہوں نے مگرمچھ کی طرح ملک کے بڑے بڑے ٹکڑے سالم نگل لئے۔ جو بھی آیا وہ اس ملک کو کھا پی کر روانہ ہو گیا۔ ماضی کے حکمرانوں کو دیکھا جائے تو وہ لوگ سرکاری وسائل کا استعمال اپنے لئے بے عزتی سمجھتے تھے۔ قائداعظم نے ریاست کے وسائل سے کبھی اپنے اوپر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ جب جناح بیمار تھے تو دوست احباب نے بیرون ملک علاج کرانے پر اصرار کیا تو آپ نے کہا میرا ملک اس طرح کے خرچے برداشت نہیں کر سکتا اور اب یہ حالات ہیں کہ پورے کے پورے خاندانوں کا علاج بیرون ملک سرکاری خرچہ پرکروایا جا رہا ہے۔ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم‘ ہندوستان کے نامور امیر شخصیت تھے لیکن صرف پاکستان کیلئے سب کچھ چھوڑ دیا اور زمین کا کلیم بھی نہیں کیا۔ جب لیاقت علی خان قتل ہوئے تو ان کی جرابیں اور بنیان پھٹی ہوئی تھی۔ اکاؤنٹ میں پیسے اور نہ اپنا گھر تھا۔ آج کیا حالات ہیں اگر کوئی دو مہینے وزیر بن جائے بیرونِ ملک جائیدادیں‘ فیکٹریاں لگ جاتی ہیں۔ آج ہم اپنے اسلام کے ہیروز کے نقش قدم پر چلنا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کا مشہور واقعہ ہے گھر میں جب سرکاری کام ختم ہو جاتا گھر کے کام کاج کیلئے چراغ بجھا دیا جاتا تھا کیونکہ اس کا تیل بیت المال سے آتا تھا۔ وہ سرکاری قلم بھی ذاتی استعمال میں نہ لاتے۔ یہ تھا ان کا ایمانداری کا معیار۔ پاکستان میں جب کوئی بڑا سیاسی عہدہ حاصل کر لیتا ہے وہ لوٹ مار‘ ذاتی مفاد تو حاصل کرتا ہی ہے اس کے ساتھ سرکاری پروٹوکول بھی حاصل کرتا ہے۔ سینکڑوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں سفر کرنا سیاست میں شان و شوکت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پاکستان میں وی آئی پی کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے تو دوسری طرف عوام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاست کی دنیا میں جلوہ افروز ہونے کی ایک بڑی وجہ وی آئی پی پروٹوکول کا حاصل کرنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ وزراء مشیران کے خاندان کیلئے بھی ہزاروں اہلکار وں اورگاڑیوں کو ان کی خدمت میں لگایا جاتا ہے۔ اس طرح قومی خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ ان نااہلوں کی سکیورٹی پر لگتا ہے۔ جن حکمرانوں نے قوم کی حفاظت کرنا تھی ان کو اپنی حفاظت کیلئے محافظ درکار ہیں توسوچیں یہ لوگ عوام کی حفاظت کیا کریں گے ؟وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول کی وجہ سے دو دو گھنٹے پہلے راستہ بندکردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر لوگوں کی جان جاچکی ہے۔ خواتین رکشوں ‘ سڑکوں اور ایمبولینس میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹوکول کے ہاتھوں عوام کو ہر روز ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ میری دُعا ہے کبھی ایسا ان کی اپنی فیملی کے ساتھ ہو تو پتہ چلے یہ تذلیل کتنی کربناک ہے۔ اس قوم پر اﷲ رحم فرمائے جو جوتے کھا کر بھی جوتے مارنے والوں کے نعرے لگاتے ہیں۔
٭٭٭٭

مزیدخبریں