کھلتے پھول مہکتی کلیاں

کلاس میں سناٹا چھایا ہوا تھایہ نہیں کہ کلاس میں تھا کوئی نہیں بلکہ پوری کلاس کی توجہ ٹیچر پر تھی زیرتعلیم طالب علم ٹیچر کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے ‘ٹیچر روزانہ کی طرح آج بھی بچوں کو اصلاحی سبق سے مستفید کررہے تھے وہ روزانہ کسی نہ کسی موضوع بارے اپنے شاگردوں کو ضرور آگاہ کرتے تھے۔ آج کا عنوان تھا ’’کھلتے پھول مہکتی کلیاں‘‘ جبکہ سارے شاگردوں نے ٹیچر کی باتوں پر کان دھرے ہوئے تھے۔موضوع اتنا دلچسپ اور غور طلب تھا کہ پلک جھبکنامشکل تھا،وہ گویا ہوئے۔
ہم تعلیم کس لئے حاصل کرتے ہیں؟ اس لئے کہ اچھے بُرے میں تمیز کر سکیں۔ اچھا کیا ہے اور برا کیا‘ تعلیم یافتہ یا تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم جانتا ہے اور آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ بے کار ہے وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے‘ علم حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ رٹا لگا لیا اور تعلیم مکمل ہو گئی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ استاد ہمیں فرش سے لے کر عرش تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جو طالب علم جتنا پوچھے گا اس کے علم میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ رواں دور میں تعلیم حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ انٹرنیٹ کے مثبت استعمال سے نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے‘ کون سا ملک کس طرح ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوااور کون سا ملک ترقی نہ کر سکا، اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ نصابی غیر نصابی معلومات‘ کھیل اور بہت کچھ ہمیں انٹرنیٹ کی مدد سے مل جاتا ہے۔اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
ننھے منے اورکھلتے پھولو! آپ پیارے وطن پاکستان کا روشن مستقبل اور پاکستان کے معمار ہیں،اور ہم سب بڑوں کی دُعائیں آپ کے ساتھ ہیں آپ ہمیشہ مسکراتے رہیں اللہ نہ کرے کہ آپ پر کوئی آنچ آئے مستقبل میں آپ بچوں نے ہی ہمارا سہارا بننا ہے۔آج کل ہر کسی کی توجہ ٹیلی ویژن اوراخبارات پر ہے،بچہ ہو یا بڑا، ہرکوئی قصور کے واقعہ پر پریشان ہے، گزرا ہوا کل اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی لیسن ’’سبق‘‘ ضرورچھوڑتا ہے اور اس سبق کو ضرور ذہن نشین کریں،یہ واقعہ بچوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ کسی انجان کی بات بھی نہیں سننی چاہئے اور نہ ہی کسی کے ساتھ فری ہونا چاہئے ، بچے ہماری قوم کا سرمایہ ہیں آپ نے ہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ ابھی تو آپ کی عمر چھوٹی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی ذمہ داریاں بڑھتی جائیں گی‘ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کریں اور اپنے ارد گرد دائیں بائیں ضرور نظر رکھیں۔آج کل ٹیلی ویژن‘ مختلف چینلز اور اخبارات میں جو کچھ نشر ہو رہا ہے اسے پڑھ اور سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔سانحہ قصور کی دلخراش خبریں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یقیناً آپ کے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لے رہے ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ آپ یہ باتیں غور سے سنیں۔ اپنا بچاؤہرشخص خود کرتا سکتے ہیں۔کسی بھی غیر شخص سے آپ کا رابطہ نہیں ہونا چاہئے۔ سکول جاتے اور آتے وقت کسی غیر شخص کے بلانے پر آپ اس کے پاس ہرگز ہرگز نہ جائیں۔ اکثر بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ بازار سے گھریلو اشیا لینے جاتے ہیں تو بلاوجہ دیر لگاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ آپ اکیلے سودا سلف نہ لینے جائیں اور اگر گھر میں کوئی نہیں تومحلے میں ہم عمر دوستوں کو ساتھ لے کر جائیں اور جو خریدنا ہو تو فوراً سے پہلے خرید کر سیدھا گھر کو لوٹیں ۔سب سے ضروری بات یہ کہ ہر بات والدین کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔آپ کے سب سے اچھے اور پیارے دوست آپ کے والدین ہیں۔ بلاجھجھک والدین کے ساتھ ہر بات شیئر کریں۔
پیارے بچو! اب وہ پرانے زمانے نہیں رہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے ہر طرف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ یقیناً آپ بچے مختلف چینلز پر موویز بھی دیکھتے ہوں گے‘خبریں بھی سنتے ہوں گے ، چینلز کے ذریعے آپ کو مکمل آگاہی نہیں تو بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہو گا۔ کوئی ایسی بات یا ایسا کام مت کریں جو آپ اور آپ کے والدین کے لئے رسوائی کا باعث بنے۔ یقینًا آپ مسکراتے پھول اور کھلتی کلیاں ہیں۔اور یہ بات بھی درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے تجربات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔یقیناً آپ کے دوست بھی ہوں گے‘دوست بنانا اچھی بات ہے لیکن جیسا کہ پہلے کہا کہ والدین سے بڑھ کر اچھا دوست اورکوئی ہو ہی نہیں سکتا‘دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کی بھلائی سوچے جو آپ کے لئے اچھا سوچے ، آپ کی خوبیاں ، حامیاںتلاش کرے اوراس کام یا بات سے روکے جس کے منفی اثرات ہوں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ والدین ہی اچھے دوست ہیں۔ گلی محلے کے دوست بھی بنا سکتے ہیں لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے آپ کا دوست ہم عمر ہونا چاہئے۔ آپ کے کزنز آپ کے بہن بھائی بھی آپ کے دوست ہو سکتے ہیں۔ جس شخص یا جس لڑکے کو آپ جانتے ہی نہیں اس سے دوستی کیسی؟ٹیچر نے اپنی نصیحت آموز باتیں ختم کرنے سے پہلے طالب علموں سے پوچھا۔ اگر آپ میں سے کوئی طالب علم کوئی کسی قسم کا سوال کرنا چاہے تو بے دھڑک ہو کرکر سکتا ہے۔
ایک طالب علم کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے سوال پوچھا۔ سر میرے ابا جان جب گھر پر ہوتے ہیں تو بازار کا ہر کام مجھے ہی کہتے ہیں۔ کبھی گھر کا سودا سلف کبھی سگریٹ‘ کبھی پان بے شک دکان گھر سے چند میٹر فاصلے پر ہے لیکن خود جانا گوارا نہیں کرتے؟
ٹیچر نے کہا آپ کے سوال کو رد نہیں کا جا سکتا بہت اچھا سوال کیا ہے ،بے شک بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ غیر ضروری اشیا بچوں سے منگواتے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ بچوں سے ایسا کام جس سے بچوں کو کوسوں دور رکھنا چاہئے کبھی نہیں کہنا چاہئے۔ باپ کا فرض ہے کہ چھوٹے بچے اور بچیوں کسی بھی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر نہ بھیجے، بلکہ خود جائیں،اگر بہت مجبوری ہو تو گھریلو اشیامنگوائیں نہ کہ غیر ضروری اشیا۔

ای پیپر دی نیشن