پیاس اور صحراء

تبصرہ جی آر اعوان

’’گیارہ برس پہلے جب وہ رحمت علی کے گھر دلہن بن کر آئی تھی تو خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی تھی جیسے اس کے تو بھاگ جاگ اٹھے ہیں۔ لیکن دونوں میاں بیوی کی خوشیوں کو اُس وقت نظر لگ گئی، جب اُن کا بیٹا پیدا ہونے کے پندرہ دن بعد دنیا سے چل بسا ‘ دونوں میاں بیوی جیسے مُرجھا ہی گئے۔‘‘
یہ اقتباس فہمیدہ کوثر کے ناول ’’ پیاس اور صحراء سے لیا گیا ہے۔ الحمد پبلی کیشنز ‘ رانا چیمبرز سیکنڈ فلور چوک پرانی انارکلی لیک روڈ سے چھپنے و الے اس ناول کے مطبع حاجی حنیف پرنٹرز ہیں۔ جبکہ قیمت200 روپے ہے۔ کتاب کا انتساب مصنفہ نے ماں کے نام کیا ہے۔ جن کے دعائیں زندگی کے الجھے راستوں میں اُن کے لئے مددگار ثابت ہوئیں۔ کتاب پر اصغر ندیم سید نے اپنے اظہار خیال میں لکھا ہے۔ مصنفہ نے بہت کم عرصہ میں بطور افسانہ نگار اور کالم نگار خود کو منوایا ہے۔ یہ ناول بھی پڑھنے والوں کی نئی سوچ اور نئی سمت عطا کرے گا۔
مسرت کلانچوی رقمطراز ہیں۔ فہمیدہ کوثر کا ناول ایک نئے دور کے نئے انداز میں معاشرے کی عکاسی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس میں کلاسیکی رنگ نظر آتا ہے۔ محسن گورایہ کا خیال ہے کہ کالم نگاری اور افسانہ نگاری میں منفرد مقام حاصل کرنے والی مصنفہ ناول نگاری میں بھی فن کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔فرحت عباس کے بقول مصنفہ کی ادب سے لائف ٹائم وابستگی ہے۔ اس کے خیالات خوبصورت ہیں۔ جنہیں وہ بڑی مہارت اور نفاست سے کہانی کی صورت دیتی ہیں۔

معرکہء بڈھ بیر کا ہیرو
’’شہید کپٹن اسفندیار بخاری جب کلاس روم میں پڑھتے تھے۔ کلاس میں اُن کی انگلی کسی طرح زخمی ہو گئی۔ ساتھی طلبہ نے شور مچایا اسفندیار کا خون نکل آیا۔ اسفند نے اس تکلیف دہ حالت میں اپنی کاپی پر اپنے خون سے PAKلکھا ‘ اتنے میں میڈم نرینہ آگئیں۔ انہوں نے ٹشو پیپر سے اسفند کا خون بند کیا‘ اس پر اسفند نے کہا میڈم مجھےPAKISTAN کو پورا کر لینے دیتیں‘ پھر 18ستمبر2015ء کو اسفند نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنے خون سے پاکستان پورا کیا۔‘‘
یہ اقتباس پروفیسر محمد ظہیر قندیل کی کتاب ’’معرکہء بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ سے لیا گیا ہے۔ کتاب کی قیمت 600 روپے ہے۔ جو بخاری لیبارٹری ‘23۔کیپٹن اسفند یار روڈ ‘ اٹک شہر سے دستیاب ہے۔ کتاب کا انتساب پاکستان کے ان جری اور بہادر سپوتوں کے نام ہے۔ جنہوں نے دہشت گردی کی طویل جنگ میں اپنی جانیںوطن پر نثار کی ہیں۔
کتاب پرکالم نگار مجیب الرحمن شامی اپنے اظہار خیال میں لکھتے ہیں۔ بلاشبہ کپتان اسفند کل کے جرنیل تھے۔ مگر جب وطن نے پکارا تو ملک پر نثار ہو گئے۔ ریحام خاں لکھتی ہیں اسفند ایک دیو مالائی کردار ہے۔700 لوگوں کی جان بچا کر خود جنت کی ہوا میں کھو گیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق کیڈٹ کالج کے پرنسپل جنرل نجیب طارق نے کہا تھا کل یہ کالج اسفند یار کی پہچان تھا۔ آج اسفندیار اس کالج کی پہچان ہے۔

ای پیپر دی نیشن