اسلام آباد (آئی این پی‘ نیٹ نیوز) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے خود کش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں، خوشی ہے متفقہ فتوے کو اداروں کی تائید بھی حاصل ہے۔ ایوان صدر میں ’پیغام پاکستان‘ کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ اسلام کی روح سے شدت پسندی، خون ریزی اور خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔ صدر ممنون نے کہا میری نظر میں علماء کا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ اسلام کی رو سے شدت پسندی، خون ریزی اور خود کش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں، جو قطعاً ناجائز اور حرام ہیں۔ خوشی ہے کہ علماء کے اس فتوے کو ریاستی اداروں کی تائید حاصل ہوگی اور اتفاق رائے ہی ہماری کامیابی کی کلید ہے، انہوں نے کہا مختلف مکاتب فکر کے علماء اور وفاق المدارس نے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے جو فتویٰ جاری کیا ہے وہ درست سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام امن محبت اور رواداری کا دین ہے۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے خطاب میںکہا کہ متفقہ بیانیہ مرتب کرنے پر تمام فریقین کے شکر گزار ہیں، آج ہم بڑی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پیغام پاکستان ہمیں متحد کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرے گا، احسن اقبال نے کہا ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کے لیے ہمیں متحد ہو کر ہی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔وزیرخارجہ خواجہ آصف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کوجڑسے اکھاڑپھینکنے کیلئے تمام ادارے اورعلما متحد ہوچکے ہیں‘قوم کا فرض ہے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔دہشت گردوں کا ساتھ دینے والوں کیلئے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا بندوق کے ذریعے شریعت کا مطالبہ غلط ہے ہماری اصل شناخت اسلام ہے مسلک نہیں۔ ہم نے بندوق کے ذریعے شرعی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کو تنہا کردیا۔ آئی این پی کے مطابق صدر ممنون حسین نے کہا کہ فرقہ واریت پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے‘ علماء کو اس مسئلے پر جامع کردار ادا کرنا چاہئے‘ اسلام کی رو سے دہشت گردی حرام اور فسادفی الارض کے زمرے میں آتی ہے‘ پیغام پاکستان ملک میں امن کی جانب اہم قدم ہے‘ معاشرے میں شدت پسندی کی مختلف شکلوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ توقع ہے آئندہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی جن سے مشکلات پیدا ہوں‘ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی قوم غیر معمولی طور پر سنجیدہ ہے۔ ستر اور نوے کی د ہائی کے درمیان ریاست اور ریاستی اداروں نے فرائض کی ادائیگی نہیں کی۔ فرائض کی عدم ادائیگی کے باعث ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسروں کی رائے کا احترام نہ ہونے کی صورت میں فرقہ واریت جنم لیتی ہے معاشرے میں شدت پسندی کی مختلف شکلوں پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہمیں اپنے حالات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہیں‘ امریکہ کے ساتھ اتفاق کرکے زیادہ گہری دلدل میں دھنستے چلے گئے‘ ہمیں اپنے مستقبل اور ملک کے مفاد کی فکر کرنی چاہئے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہم کمزور ہوئے‘ امریکہ کے چرچوں میں جمع کئے گئے پیسے اسرائیلی بستیوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک ملاقات کے دوران امریکیوں نے مجھے مفاد پرست کہا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا دہشت گردوں کو ناسور قرار دیتے ہوئے متفقہ فتویٰ جاری کرنے پر علماء کے مشکور ہیں‘ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تمام ادارے اور علماء متحد ہوچکے ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جارہا ہے۔
70 اور 90 کی دہائی میں ریاست‘ اداروں نے فرض پورا نہیں کیا‘ توقع ہے غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی: صدر ممنون
Jan 17, 2018