داعیِ اتحاد اُمت کانفرنس

Jan 17, 2020

مولانا محمد عباس غازی

آج بروز جمعتہ المبارک بادشاہی مسجد لاہور میں 17 ویں سالانہ داعی اتحاد اُمت کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام و مشائخ عظام اور وفاقی و صوبائی وزرائے کرام شرکت و خطاب فرمائیں گے۔ داعی اتحاد امت کانفرنس ہر سال منعقد ہوتی ہے جس میں مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزادؒ کی حیات و خدمات کے حوالے سے قوم کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا جاتا ہے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔
مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد مدرسہ قاسم العلوم ملتان کے فارغ التحصیل اور سند یافتہ عالم دین تھے۔ بعد میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے علوم تفسیر القرآن میں پی ۔ ایچ۔ ڈی کا امتحان پاس کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزادؒ اپنی شخصیت کردار اور خدمات کے حوالے سے تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ اُن کی شخصیت ایک کرشماتی شخصیت تھی۔ ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مُرصع تھے۔ خوبصورت چہرے کے ساتھ کردار اور افعال کی خوبصورتی اُن کی شخصیت کو چار چاند لگاتی تھی۔ خوش گفتاری اُن کا وصف خاص تھا۔ طبیعت میں نرمی اور حوصلہ و برداشت کی خوبیاں نمایاں تھیں۔
اپنے ملنے والوں اور ساتھیوں کو خوب عزت دیتے تھے اور ان کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اپنے ساتھیوں اور حلقہ احباب کی عیب جوئیوں سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ اکثر سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کے دورے پر جاتے رہتے تھے۔ اُن پر عربوں کی تہذیب کا نمایاں اثر تھا۔ مہمان نوازی بھی عربوں کی خاص تہذیب ہے۔ جو آج بھی دُنیا بھرکے عرب ملکوں کی نمایاں خصوصیت اور پہچان ہے۔ مولانا سید عبدالقادرؒ آزاد نے خلیجی عرب ملکوں کے ساتھ ساتھ دُنیا کے دیگراکثر ممالک کے بھی تبلیغی دورے کئے جن میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، ڈنمارک ، سویڈن ، انڈونیشیاء ملیشیا، سوڈان، برونائی، دارالسلام ، مصر، لیبیا، چاڈ،فرانس اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
1970ء میں انہوں نے بادشاہی مسجد لاہور میں خطیب و امام کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ قبل ازیں وہ بہاولپور میں اسلامی مشن کے پرنسپل کے عہدہ پرفائز تھے۔ یہ ادارہ انہوں نے خود وسیع و عریض جگہ خرید کر قائم فرمایا تھا جو آج بھی اہم دینی ادارے کے طور پر ملک میں معروف ہے اور اسلامی علوم کی اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ 1970ء میں بادشاہی مسجد لاہور کی امامت و خطابت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں وہ وسیع پیمانے پر نمایاں ہو کر دینی خدمات کو وُسعت دینے میںمصروف ہو گئے۔
’’خطابت کے خوبصورت جوہر اُن کی پہچان بن گئے۔ اپنی خوبصورت خطابت کے ذریعے وہ اندرون و بیرون ملک ایک ممتاز و بلند پایہ مبلغ اسلام کے طور پر معروف ہو گئے۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ جب خطبہ کے لیے منبر پر تشریف لاتے تو دین اسلام کے موتیوں کی مالا پرو کر سامعین کو ہمہ تن گوش کر لیتے۔‘‘
وقت آگے ، بڑھتا گیا اور مولانا سید عبدالقادر آزادؒ کا بطور خطیب و مبلغ اسلام قد بھی نمایاں ہوتا چلا گیا۔ 1974ء میں جب اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں طلب کی تو مولانا سید عبدالقادر آزاد کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے اظہار کا نمایاں موقع میسر آیا۔ دنیا بھرکے مسلمان بادشاہ اور حکمران بادشاہی مسجد لاہور میں نماز جمعتہ المبارک کی ادائیگی کے لیے تشریف لا رہے تھے۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ نے اس موقع پر مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کا نہایت گرمجوشی کے ساتھ والہانہ استقبال کیا۔ آپکے پُروقار انداز استقبال اور پُرجوش مہذب طرز عمل نے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سمیت دُنیا بھر کے مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کو متاثر کیا۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید نے آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں، قابلیت، آپکے طرز خطابت اور خداداد صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے سعودی عرب میں اعلیٰ عہدے پر خدمات کی پیشکش کی۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ نے بہت گرم جوشی اور اعلیٰ ڈپلومیسی کے ساتھ شاہ فیصل شہیدؒ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ مجھے ہر سال حج کرنے کی اجازت اور سعادت سے مشرف فرما دیں۔ چنانچہ شاہ فیصل شہیدؒ کی منظوری سے آپ کو 16 دیگر خوش نصیبوں کے ساتھ سعودی عرب کے خرچہ پر سرکاری طور پر حج کرنے کی ہر سال سعادت نصیب ہوتی رہی ۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے شریک تمام مسلمان حکمرانوں نے آپکی اقتداء اور امامت میں نماز جمعتہ المبارک ادا فرمائی۔ دُنیا بھر کے مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کی بیک وقت امامت فرمانے پر آپ کو ’’امامُ الملوک والسلاطین‘‘ کا منفرد اعزاز اور خطاب حاصل ہوا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک کئی ایک مسلمان حکمرانوں سے آپ کے تعلقات بعد میں اُن سے آپ کی ملاقاتوں کی صورت میں قائم رہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل ، لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی ، مصر کے صدر حُسنی مبارک ، عراق کے صدر صدام حسین، فلسطین کے صدر یاسر عرفات، پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سے بھی آپ خصوصی طور پر ملتے رہتے تھے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر یہ جمعتہ المبارک کا بابرکت دن تھا جب دُنیا بھر کے مسلمان ممالک کے سربراہ بادشاہی مسجد لاہور میں نماز جمعتہ المبارک ادائیگی کے لیے تشریف لا رہے تھے۔
نماز جمعتہ المبارک کی امامت کے لیے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اورمولانا سید عبدالقادر آزادؒ نے مشترکہ طور پر سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل شہید کو امامت کے لیے آگے امامت کے مصلیٰ پرکھڑا کرنا چاہا تو شاہ فیصل شہیدؒ نے مولانا سید عبدالقادر آزادؒ کو بازو سے پکڑ کر امامت کے لئے کھڑا کر دیا اور فرمایا آپ امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔ کراچی میں ایک غیر مُسلم جوڑا یہ سب پروگرام لائیو دیکھ رہا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر اس منظر کو دیکھ کر وہ غیر مسلم جوڑا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا کہ یہ دین کتنا باعظمت ہے جس میں بادشاہ پیچھے صف میں کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں اور اپنے دینی پیشوا کوآگے کھڑا کرتے ہیں۔
حضرت مولانا سید عبدالقادر آزادؒ کے دست حق پر ہزاروں غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا۔ وہ اکثراوقات دین اسلام قبول کرنے والے غریب خاندانوں کی فوری امداد اپنی جیب خاص سے فرماتے اور بعض اوقات زیادہ تعاون کی غرض سے حاضرین کرام کو بھی ان نومسلم حضرات یا خاندان کے ساتھ تعاون کرنے کا شوق دِلاتے۔ حضرت مولانا سید عبدالقادر آزادؒ نے محکمہ اوقاف صوبہ پنجاب میں اتحاد بین المسلمین سیکرٹریٹ کی بنیاد رکھی۔ وہ تمام مسالک کو فروعی اختلافات کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ رواداری، حوصلہ، صبر اور اتحاد کا درس دیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے میں اہم کردار کیا۔ بڑے تنازعات میں فریقین کو راضی کرنے اور باہم شیرو شکر کرنے میں مولانا سید عبدالقادر آزادؒ ید طولیٰ رکھتے تھے اور تمام مسالک کے اکابرین اُنکی بہت زیادہ عزت اوراحترام کرتے تھے۔
حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب ہر سال محرم الحرام کے موقع پر اُن کی خدمات سے استفادہ کرتی۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ نے پاکستان میں امن کو مضبوط بنانے اورمذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ’’انٹرفیتھ کونسل فار پیس اینڈ ہارمنی‘‘ کی بھی بنیاد رکھی۔
حضرت مولانا سید عبدالقادر آزاد تیس سال تک بادشاہی مسجد لاہور میں خدمات انجام دیتے رہے۔ اُن کی تصانیف کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ زیادہ مشہور تصانیف میں ’’مضامین قرآن‘‘ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ اور ’’ارکان اسلام‘‘ نمایاں ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’بین الاقوامی شخصیات کی کہانی مولانا آزاد کی زبانی‘‘ ایک معروف کتاب ہے جسے پاکستان کے ایک قابل قدر قلم کار نے مولانا سید عبدالقادر آزاد ؒ کے انٹرویو اورمختلف بین الاقوامی شخصیات سے اُن کی ملاقاتوں، تعلقات اور اُن شخصیات کے بارے میں مولانا سید عبدالقادر آزادؒ کے تاثرات کومرتب کر کے کتابی شکل دی ہے۔ مولانا سید عبدالقادر آزادؒ کی وفات کے بعد بادشاہی مسجد لاہور میں امامت و خطابت کے فرائض اُن کے جانشین اُن کے لخت جگر اور اُن کے نور نظر حضرت مولانا سید عبدالخبیر آزاد نے سنبھالے۔ مولانا سید عبدالخبیر آزاد نے بادشاہی مسجد کی خدمت اور ترقی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ مولاناسید عبدالخبیر آزاد دن رات خدمات انجام دینے میںمصروف رہتے ہیں۔ اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتحاد بین المسلمین اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مسلسل محنت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ ملک بھر کے دینی حلقوں میں اُن کے لیے عقیدت اور محبت پائی جاتی ہے۔ تمام مسالک کے اکابرین کے ساتھ اُنہوں نے قریبی تعلقات کو فروغ دیا ہے اورمضبوط بنایا ہے۔
اندرون و بیرون ملک اُن کے چاہنے والے انہیں مختلف پروگراموں میں خصوصی طور پر مدعو کرتے ہیں۔
مولانا سید عبدالخبیر آزاد گزشتہ 17 سال سے بادشاہی مسجد لاہور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف مذاہب اورمسالک میں روا داری امن اور محبت کو فروغ دیا ہے۔ پورے ملک میں مذہبی و دینی حلقے انہیں ’’سفیرامن‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

مزیدخبریں