شاکر نظامی بھی چلے گئے۔ 1970ء کا زمانہ یاد آ تا ہے۔ کتنے خوشی سے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ساغر صدیقی نے ان کے مجوزہ جریدے کا نام ’’نظام جمہوریت‘‘ تجویز کیا ہے۔ ’’نظام جمہوریت‘‘ سرگودھا میں علم و ادب‘ صحافت کے مشترکہ ذائقے کے ساتھ برسوں شائع ہوتا رہا۔ اس دوران کیا کچھ بدلا۔ شاکر نظامی شاعر‘ صحافی‘ سیاسی کارکن اور جیل یاترہ کے بعد پھر صحافت اور شاعری کی طرف پلٹے۔ ریڈیو پاکستان کے خصوصی رپورٹر بنے۔ ان کے اردگرد کا منظرنامہ بولا۔ ادبی محفلوں کے شرکاء بدلے مگر ان کی سوچ‘ لوگوں سے‘ وطن سے اور خاص طورپر حضور اکرمؐ سے محبت کی سوچ نہیں بدلی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔ سرگودھا کے ادبی صحافتی ستاروں میں مولانا گل سرحدی‘ تاجدار دہلوی‘ عبدالرشید اشک‘ وزیر آغا‘ اثر چوہان‘ اشک ترابی‘ عاشق جعفری‘ غلام جیلانی اصغر‘ پروفیسر خورشید رضوی‘ عزیز علوی‘ صوفی فقیر محمد‘ الحاج میاں محمد انور‘ شوکت راز‘ ہارون الرشید تبسم‘ پروانہ شاہپوری‘ وزیر حسین شیرازی‘ کامران رشید‘ اکرام آزاد‘ آصف راز‘ اصغر شامی‘ پروفیسر محمد اقبال میں سے کچھ آسمان کی رونق ہیں اور جو باقی ہیں‘ ان کی زمین پر روشنی برقرار ہے۔ شاکر نظامی بھی اب زمین سے آسمان کی طرف کوچ کر چکے ہیں مگر اس طرح کہ اپنی شاعری کی صورت میں دیر تک ان کی روشنی زمین پر برقرار رہے گی۔ شاکر نظامی شیخ محمد رمضان کے فرزند تھے۔ 1945ء میں انبالہ میں پیدا ہونے کی مناسبت سے وہ شاعر کی حیثیت سے انبالوی لکھوا سکتے تھے مگر انہوں نے حضرت نظام الدین کی نسبت سے نظامی کہلوانا زیادہ پسند کیا۔ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ چنانچہ رحمان پورہ میں ان کا نظام جمہوریت کا دفتر ہمیشہ ادبی محفلوں کا مرکز بنا رہا۔ قادر الکلام شاعر تھے۔ مگر گزشتہ نصف صدی کے دوران اور خاص طورپر موبائل فون کی سہولت کے بعد ان کا ہر دوسرے چوتھے روز فون آتا۔ بیدار بھائی دو منٹ دینا پھر اپنا تازہ کلام سنانا شروع کر دیتے اور پوچھتے ’’کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں؟‘‘ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ مجھے بابا وقار انبالوی یاد آجاتے جو نوائے قت میں روزانہ کا قطعہ لکھتے تھے۔ اساتد الاساتذہ تھے مگر محترم مجید نظامی کو منظوری کیلئے بھجوانے سے پہلے خود میرے اس آتے اور دو قطعات میرے سامنے رکھ کر کہتے ’’کاکا ذرا ایک نظر دیکھو۔ ٹھیک ہے؟‘‘ میں شرمندہ بھی ہوتا مگر یہ احساس بھی ہوتا کہ بابا جی اس طرح بالواسطہ ہماری تربیت کر رہے ہیں۔ شاکر نظامی کو جب بھی کوئی مشورہ دیا انہوں نے ایک پل میں قبول کیا۔ وہ رورنامہ فرنٹ کے سرگودھا میں ریذیڈینٹ ایڈیٹر بھی تھے اور ریڈیو پاکستان کیلئے اہم شخصیتوں کے انٹرویوز کیساتھ ساتھ ریڈیو فیچر بھی تیار کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان سرگودھا کے پروگرام ’’شاہین‘‘ میں ان کے انگنت انٹرو نشر ہوئے ان کا حلقہ احباب اور حلقہ ارادت بہت وسیع تھا۔ چنانچہ ان کی زندگی میں ہی مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے کلام کے والے سے تحقیقاتی مقالے لکھے گئے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا میں مہرین سعید نے‘ نمل اسلام آباد روبینہ عالم نے اور ناردرن یونیورسٹی ہزارہ میں صائمہ حنیف نے ایم اے اور ایم فل کیلئے ان کی غزل گوئی اور ادبی خدمات کے حوالے سے مقالے لکھے۔ 1969ء میں ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’نوائے دل‘‘ شائع ہوئے۔ 1978ء میں ان کا دوسرا مجموعہ حسن تمنا شائع ہوا۔ اس طرح کسی اور کیلئے ’’آئینہ عقیدت‘‘ اوز ’’حسن نظر‘‘ نے تخلیقی سطح پر ان کو بلند مقام عطا کر دیا۔ ’’حسن نظر‘‘ بنیادی طور پر مختلف شخصیتوں کے منظوم خاکوں کی کتاب ہے جس سے ان کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ اس تخلیق کے حوالے سے ڈاکٹر رشید گوریجہ، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ممتاز عارف، اخلاق عاطف، پروفیسر راشد متین، ڈاکٹر عباد رشید، ذوالفقار احسن اور منزہ انور گوئندی نے ان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ وہ سرگودھا ڈویژن میں شررصہبائی مرحوم، شکیب جلالی مرحوم کی درویشی میں شاہی کی روایت اور خودداری کے جذبے کو لے کر چلنے والے قلم کار تھے۔ معاشرے کے دکھ درد بانٹنے اور ان کے حل کیلئے دامے درمے قدے سخنے جدوجہد کے قائل تھے اور سب سے اہم بات کہ وہ ایک شفیق باپ ، ذمہ دار شوہر اور رشتوں کو نبھانے ولے انسان تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے رفیقہ حیات داغ مفارقت دے گئیں تو ان کے اندر کی کیفیت آنسو بن کر ان کی شاعری میں ڈھل گئی۔ ان کا بہت سا کلام غیرمطبوعہ ہے اور ان کے غمگسار بیٹے ندیم شاکر یقیناً ان کے تخلیقی کام کو طباعت کے بعد ان کے چاہنے والوں کی نذر کریں گے۔
شاکر نظامی کی یاد میں
Jan 17, 2021