جن شہری علاقوں میں خانہ بدوشوں اور غربت کی آخری لکیر پر زندگی بسر کرنے والے موجود ہوتے ہیں، وہاں جگہ جگہ جھونپڑ پٹی میں رہائش رکھنے والے دکھائی دیتے ہیں، جو وسائل اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک علاقے میں چند جھونپڑپٹیاں موجود تھیں۔ ایک جھونپڑ پٹی میں آیا جی بھی اپنے تین بچوں اور بوڑھی خالہ کے ساتھ رہتی تھی ۔ اس کے پاس وسائل نہیں تھے کہ وہ دو کمروں کا گھر تعمیر کر لیتی ۔ صبر شکر کر کے جھونپڑی بنا لی ۔ آیا جی کو بھی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر کر دیا گیا ۔ مجبوراً اُسے گھروں میں کپڑے اور برتن دھو کر اپنا چولہاجلانا پڑا ۔ اس مرتبہ بارشوں کا سلسلہ معمول سے طویل ہو گیا ۔ آیا جی نے منت سماجت کر کے لوگوں سے کچھ رقم اکٹھی کی اور اپنی جھونپڑی کے اوپر پلاسٹک شیٹ ڈال لی۔ جس کے نتیجے میں فوری طور پر یہ فائدہ ہوا کہ بارش کے قطرے جھونپڑی کے اندر گرنا بند ہو گیا۔ برتن ، بستر اور کپڑے گیلے ہونے سے محفوظ ہوگئے اور اس کے ساتھ سرد ہوائوں کا داخلہ بھی بند ہو گیا۔ جس محلے میں آیا جی رہتی تھی اس کے ساتھ جدید طرز تعمیر کی ایک بستی بھی تھی ،وہاں ایک گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں تو انہیں یہ امید پیدا ہوئی کہ شادی کے دنوں میں گھر کے کام کرنے سے اس کی آمدن میں اضافہ ہو گا تو وہ اپنے گھر کا چولہا ہر روز جلا سکیں گی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وہ کئی روز تک کچھ پکا نہیں سکتی تھی۔ گھروں سے بچا ہُوا سالن اور روٹی کے ٹکڑے اکٹھے کر کے وہ اپنا اور بچوں کی گزر اوقات کرتی تھی ۔ جس گھر میں شادی ہونے والی تھی، وہاں اس نے بڑی منت سماجت سے کام کرنے کا ’’ٹھیکہ‘‘لیاتھا۔ آیا جی اور بچے رات گئے ، اُس گھر کے کام کاج میںمصروف رہتے ، سخت مشقت تو کرنا پڑتی تھی لیکن انہیں دو وقت پیٹ بھر کر گھر والوں کا بچا ہُوا کھانا مل جاتا تھا۔ تقریباً ہر روز ہی گھر کی مالکن اور دیگر خواتین رشتہ دار کچھ پیسے بھی صدقہ خیرات اور انعام کے طور پر دے دیتی تھیں۔ اس لئے آیا جی اور بچوں کے ساتھ ساتھ بوڑھی خالہ بھی خوش تھی کہ اس کے لئے ایک آدھ دوائی بھی آ جاتی تھی ۔ جس لڑکی کی شادی ہو رہی تھی ، اس نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ رخصت ہو گی تو سلامی کے ملنے والے پیسوں سے کچھ پیسے وہ بچوں اور آیا جی کو دیکر جا ئیگی۔ آیا جی نے سو چا تھا کہ وہ کچھ کھانے کا سامان خرید کر لے آئیگی اور خالہ کیلئے دوا کا بھی بندوبست کر لے گی ۔ اس شادی سے انہوں نے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ دولہا بارات لے کر آیا تو لڑکی والوں نے اسکے استقبال کیلئے ڈھول بجانے والوں کا انتظام کر رکھا تھا ۔ لڑکی کے بھائی نے آتش بازی شروع کروا دی۔ فضا میں آتش بازی کی وجہ سے روشنی ہی روشنی ہو رہی تھی ۔ ایک شور اور ہنگامہ تھا ۔ بارات آنے کی خوشی میں سبھی مگن اور سر شارتھے کہ اچانک آیا جی کا بیٹا پریشانی کے عالم میں آیا اور بتانے لگا کہ اماں ہمارے گھر کو آگ لگ گئی ہے ۔ جلدی چلو میرے ساتھ ۔ وہ حیران اور پریشان اس کے ساتھ بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی ۔ لوگوں نے بتایا کہ آتشباز ی ہو رہی تھی تو شُرلیاں اور گولے گھروں کی چھت پر گرنے لگے ۔ دو شرلیاں آیا جی کی جھونپڑی پر بھی گریں جس سے پہلے پلاسٹک کو آگ لگ گئی ، پھر جھونپڑی کے سرکنڈے بھی جلنے لگے تو پڑوسیوں نے بمشکل پانی پھینک کر آگ پر قابو پایا، اگر پڑوسی فوری مدد نہ کرتے تو سارا سامان جل جاتا اور بوڑھی خالہ بھی آگ کی زد میں آ سکتی تھی ۔ آیا جی کے ہوش اڑ گئے ۔ آگ بجھانے والے پانی سے بستر، کپڑے اور برتن گیلا ہو گئے تھے۔ جگہ جگہ سے پلاسٹک جلنے سے سوراخ ہو گئے تھے ۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ شادی والے گھر گئی ، اس کی کسی نے بات نہ سُنی ۔ اسے کہا گیا کہ دلہن رخصت ہو گی تو دیکھا جائیگا ۔ افراتفری میں دلہن آیا جی کو سلامی کے پیسوں میں سے کچھ بھی دئیے بغیر اپنے دلہا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی ۔ رات گئے دلہن کا باپ اور بھائیوں نے کہا کہ کل صبح بات ہو گی ۔ بڑی مشکل سے سردی میں را ت گزاری ۔ اگلے روز انہوں نے کہا کہ آتشبازی سے تھوڑی بہت آگ لگی تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ۔ جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیاگیا ۔ یہ کہتے ہوئے دلہن کے باپ نے اسکے ہاتھ میں سو سو روپے کے پانچ نوٹ تھما دئیے ۔ اپنی جھونپڑی کی تباہی اور گھر کے کام کاج کا یہ معاوضہ تھا ۔ آیا جی چکر کھا کر گری تو سر اور کندھے پر چوٹ لگی ۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے وہ ایک نظر تباہ ہونیوالی اپنی جھونپڑی کو دیکھتی اور دوسری نظر سے اس کے چند سو روپے معاوضے کو دیکھتی ۔ اپنے گھر کے نقصان اورآٹھ دس روز تک محنت مشقت کے معاوضے کو دیکھ دیکھ کر وہ پاگل ہی ہو گئی ۔ غریبوں اور بے سہارا لوگوں سے ’’انصاف ‘‘کی اس کہانی کا یہی انجام تھا۔ آنسوئوں کی دھند میں اسے کچھ سجھائی اور دکھائی نہ دے رہاتھا۔