مہنگائی ہوتی ہے ہونے دو، لوگ بولتے ہیں بولنے دو، پی ڈی ایم اشارے کی منتظر ہے رہنے دو!!!!

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو نئے سال کا تحفہ تو دیا ہی ہے اس کے ساتھ ہی اس سرد موسم میں لوگوں کو گرما گرم بحث کا موقع بھی فراہم کیا ہے چونکہ حکومت عوامی ہے اور عوامی حکومت ہر لحاظ سے اپنے لوگوں کی سہولت کا سامان کرتی ہے۔ اس لیے ایک طرف اپنی ضرورت کا بھی خیال رکھا ہے اور عوام کو سردیوں میں گرم موضوع فراہم کیا ہے تاکہ لوگوں میں سردی کی شدت کا احساس ذرا کم ہو سکے۔ حکومت نے یقیناً بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ ویسے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تجویز کے مطابق اضافہ نہ کر کرے بھی وزیراعظم عمران خان نے عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے وہ چاہتے تو قیمتوں میں اس سے بھی زیادہ اضافہ کر سکتے تھے لیکن انہیں عوام کا بہت احساس ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عام آدمی پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو حکمران فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ سہولت صرف دو ہزار اٹھارہ تک ہی محدود تھی اب کوئی حکمران اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ ہمارے وزیراعظم صادق و امین ہیں۔ ان پر کوئی یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ وہ اٹھا رہے ہیں۔ مہنگائی سے فائدہ وزیراعظم نہیں اٹھا سکتے لیکن انہیں یہ پتہ ضرور لگانا چاہیے کہ مہنگائی سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے۔ وزراء  ہمیشہ مہنگائی پر مختلف ممالک سے موازنہ کرتے ہیں اور دلیلیں دیتے تھکتے نہیں حالانکہ انہیں یہ دلیلیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مہنگائی تو دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے بالخصوص جن چیزوں کا تعلق عالمی مارکیٹ سے ہوتا ان میں اتار چڑھاؤ تو دنیا میں ہر جگہ ایک سا ہوتا ہے اس لیے وزیرانِ کرام اور مشیران کو اس بارے محنت کرنے یا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عالمی کاروبار تو کسی کے بس میں نہیں البتہ اگر یہ سب مل کر مہنگائی سے پیدا ہونے والے مسائل حل کرنے پر کام کریں تو عام آدمی کا بھلا ہو گا۔ وزیرانِ کرام اور مشیران کو چاہیے کہ وہ مہنگائی شوق سے کریں اس کا دفاع بھی کرتے رہیں لیکن ساتھ ساتھ عام آدمی کی آمدن بڑھانے کے اقدامات بھی کریں تاکہ ضروری اشیاء  کی قیمتیں بڑھانے کا حکومتی شوق بھی پورا ہوتا رہے اور عام آدمی کی زندگی بھی مشکل نہ ہو۔ اب یہ بات عقل اور احساس کی ہے لیکن حکمران طبقہ تو ان صفات سے محروم ہوتا ہے اس لیے انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ عام آدمی کی زندگی کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہمارے وزیروں مشیروں کا خیال ادھر جائے تو یقیناً عام آدمی کا بھلا ہو سکتا ہے۔
جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو حکومت نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ زندگی مشکل ہونے سے جرائم کا کتنا گہرا تعلق ہے کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مہنگائی اس لیے کرتی ہے تاکہ وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کو بھی تنخواہیں حلال کرنے کا موقع دے۔ کیونکہ حکومت جرائم ختم کرنے کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو پکڑنے کے لیے نئے نئے ادارے قائم کیے جاتی ہے۔ حالانکہ جرائم کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ جب زندگی کی قیمت کم ہوتی جائے، روزگار کے مواقع کم ہوتے چلے جائیں، اجرت اتنی نہ ہو کہ مہینہ بھر کام کرنے کے بعد بھی تنخواہ سے ضروریات پوری نہ ہوں۔ پندرہ بیس ہزار ماہانہ تنخواہ ہو، پورا مہینہ سخت محنت کے بعد بھی  اتنے پیسے نہ ملیں کہ کام کرنے میں دلچسپی باقی رہے تو پھر بہت سے نوجوان کم وقت میں زیادہ پیسے حاصل کرنے کے لیے ممفی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں۔ قانون توڑتے ہیں، کہیں خون بہاتے ہیں، کہیں چوریاں، ڈکیتیاں ہوتی ہیں، کہیں اغواء  برائے تاوان کے واقعات ہوتے ہیں پھر جرم کی دنیا میں پاؤں رکھنے والوں کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کی خوشیوں کو ماتم میں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ حکومت جرائم کو قابو کرنے کے لیے جرم ہونے کی وجہ کو تلاش کرے اور ان کا سدباب کرے۔ حکومت کے پاس راستہ ہے کہ وہ نوجوانوں میں زندگی کی محبت پیدا کرے ان کے لیے زندگی آسان بنائے، ضروریات پوری کرنے کا بندوبست کرے جرائم کم ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ناصرف جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بیچینی، بدامنی، دہشت اور خوف میں اضافہ ہو گا۔ اتنے اچھے اچھے لوگ حکومت میں موجود ہیں، کئی ایسے ہیں جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں، ماضی کے حکمرانوں کو برا بھلا کہتے تھکتے نہیں ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، تاریخ کے حوالے دیتے اور نئے نئے فلسفے پیش کرتے ہیں انہیں تو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ نوجوان کیوں جرم کی دنیا میں اندھا دھند قدم رکھ رہے ہیں۔ جرائم روکنا ہیں تو زندگی کو آسان بنائیں۔
بہت پہلے سے لکھ رہا ہوں کہ میاں نواز شریف حکومت کی پہنچ میں نہیں ہیں۔ وہ ملک سے جا چکے ہیں اور سب کی رضا مندی سے گئے ہیں وہ اپنے وقت پر واپس آئیں گے۔ حکومت نے انہیں جانے سے نہیں روک سکی جب بھی واپس آئیں گے روکنا بھی ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ وہ جب تک چاہیں گے لندن رہیں گے اور اب تو انہیں سعودیہ بھی بلا رہا ہے۔ یہ سب حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے کہ وہ سعودیہ جو میاں نواز شریف سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا تھا آج میاں نواز شریف کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ اس تبدیلی کا کریڈٹ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو جاتا ہے۔ انگلینڈ کی طرف سے مکمل تعاون اور سعودی عرب کی طرف سے ملنی والی حمایت کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ میاں نواز شریف پی ٹی آئی کے بس سے باہر ہیں۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے کام پر توجہ دے میاں نواز شریف پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دیں جن وعدوں پر ووٹ لیے گئے ہیں ان وعدوں کو نبھانے کے لیے کام کریں۔ عوامی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں حکومتی ترجیحات میں عوامی مسائل نظر نہیں آتے، حکومت کا زور بہتر ہوتے اشاریوں کی طرف ہے۔ اشاریے بہتر ہو جا رہے ہیں، ہر گذرتا دن اشاریوں کی بہتری کی خبر سناتا ہے لیکن پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے، بجلی مہنگی ہو رہی ہے، آٹے کی قلت پیدا ہو رہی ہے، گندم کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہی حال چینی کا ہے، معمولی وقت کے لیے چینی کی قیمت میں کمی واقع تو ہوئی لیکن ایک مرتبہ پھر چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سال کے آغاز میں ہی جس طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، بجلی مہنگی ہوئی ہے، آٹے اور چینی کی فراہمی اور قیمتیں حکومت کے قابو میں نہیں ہیں ان حالات میں دو ہزار اکیس کے دوران پاکستان کو ایک بڑے غذائی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ جو وزراء  اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سوا دو سال میں کچھ سیکھ نہیں سکے تیسرے سال میں بھی ان سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
حکومت پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے اسلام آباد اور راولپنڈی کی طرف مارچ کے حوالے سے مختلف بیانات جاری کیے جا رہے ہیں کوئی پی ڈی ایم کو چائے پلانا چاہتا ہے تو کوئی حلوے کی پیشکش کر رہا ہے۔ بعض حلقوں کو اس حوالے سے بھی خدشات ہیں کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کرتی بھی ہے یا نہیں ایسی سوچ رکھنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ لانگ مارچ ہو گا، ضرور ہو گا۔ اس کے لیے سب سے پہلے وقت کا تعین ہونا ہے اس سے بھی زیادہ اہم انہیں باہر سے کسی اشارے کا انتظار ہے جیسے ہی اپوزیشن کو اشارہ ملتا ہے وہ لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے۔ اس لانگ مارچ سے ملک کا سیاسی منظر واضح ہو جائے گا۔ جمہوریت میں ایسی احتجاجی تحریکیں حکومتوں کو مجبور کر دیتی ہیں پھر جیسے جیسے اپوزیشن نظام کی ضروریات کو پورا کر رہی ہے اس کے بعد یہ سوچنا کہ وہ سارا تعاون بغیر کسی وجہ کے کر رہی ہے غلط ہو گا۔ حکومت اپوزیشن کی میزبانی کے لیے تیار رہے اور اپنے نالائق وزراء  کی بے۱ٍ قابو زبان کا انجام بھگتنے کی بھی تیاری کرے کیونکہ آگ نہ لگنے کی صورت میں یہ کام پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نہیں بلکہ حکومت کے اپنے لوگ کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن