باقی سب ٹھیک ہے

پرانے وقتوں میں جب پیغام رسانی کا ذریعہ خط یا چٹھی ہوا کرتی تھی ایک سردا رجی کی والدہ جو کہ اپنی بیٹی کے ہاں آئی ہوئی تھی اسے فکر لاحق ہو ئی کہ کافی عرصہ ہوگیا ہے کہ پیچھے گھر والوں کی کوئی خیر خبر نہیں تواس نے آبائی گھر میں بیٹوں اور ان کے آبائی کنبوں کے خیریت کیلئے  خط لکھوا کر بڑے بیٹے کو ارسال کر دیا کہ سب کی خبر دو خط وصول ہوتے ہی سردا ر جی بے چین ہوگئے کہ ماں جی کو جلد از جلد خط کا جواب دینا چاہیے چونکہ سراد جی پڑھے لکھے نہیں تھے لہذا انھوں نے اپنے بڑے بیٹے سے بولا پُتر بیٹھو میرے پاس اور جو جو میں بولوں وہ لکھو پھر سردار جی نے ڈکٹیشن کے انداز میں بولنا شروع کیا پُتر لکھ بے بے جی رب کی کرپا( مہر بانی ) سے سب ٹھیک ہے بس پچھلے ہفتے چاچے بلویندر کا دیاہنت(موت ) ہوگیا پر تو فکر نہ کر’’ باقی سب ٹھیک ہے‘‘۔ سچ یاد آیا ساڈی بوری مجھ (براؤن بھینس) کرنٹ لگنے سے مر گئی پر تو فکر نہ کر ’’باقی سب ٹھیک ہے‘‘ ہاں ہور یاد آیا نکا کاکا تانگے سے گر کر بازو تڑوا بیٹھا چنتا دی لوڑ نہیں (پریشانی کی کوئی بات نہیں )’’باقی سب ٹھیک ہے‘‘او ہو اک گل دسنی تے بھل گئے(او ہو ایک با ت تو بتانی تو بھول گیا) تین دن پہلے تیز بارش نال حویلی دی پچھلی کند ڈھ گئی(حویلی کی پچھلی دیورار گر گئی (پر تو ںفکر نہ کر رب دی مہر نال ’’باقی سب ٹھیک ہے ‘‘ اور  آج کل یہی حال ہماری کچھ وفاقی وزارتوں کا ہے جب ان کی کاگردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو پے درپے نقصانات کے با وجود سردار جی کی طرح ایک ہی گردان سنائی جاتی ہے آپ فکر نہ کرئے یہی ایک مسئلہ ہے ’’باقی سب ٹھیک ہے‘‘ ۔حالیہ دنو ں میں پی آئی اے کے ترجمان نے اپنے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ پی آئی کی فلائٹ نمبر195بوئنگ طیارہ  777کوملا یشیئن حکومت نے عین کو اس وقت قبضے میں لے لیا جب وہ پروان چڑھنے لگا ذرائع کے مطاق پی آئی نے 12سال قبل ویت نام کی ہوائی کمپنی سے یہ طیارہ لیز پر لیا  اور گزشتہ لاک ڈاؤن کے دوران سے پی آئی اے کا اس کی لیزنگ کے بقایا جات کی ادائیگی پر تنازعہ  کے نتیجے میں پی آئی اے نے لندن کی مصالحتی عدالت میں کیس درج کر رکھا تھا ویت نام کی فلائنگ کمپنی کے مطابق  انہیں کئی ماہ سے لیز کی رقم ادا نہیں کی جا رہی تھی لہذاملائیشیاکے شہر کو لا لمپور کی مقامی عدالت کے ذریعہ یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے طیارے کو قبضہ میں لے لیا گیا۔ ماہرین کے نزدیک بین الاقوامی بائی لاز کے مطا بق اس طرح کا فیصلہ اور جہاز کا قبضے میں کئے جانا انٹر نیشنل قوانین کے عین مطابق اور درست ہے وزیراعظم کے ترجما ن شہباز گل کے مطابق اصل مسئلہ لاک ڈاؤن کے دوران لیز کی مقرر کر دا رقم  میں کمی کا مطالبہ تھا کہ لچک دکھا ئی جائے اور پیسے کم کئے جائیں پی آئی اے اور ویت نام کے کمپنی کے دوران یہ معاہدہ 12 سال قبل ہواتھا کرونا وائرس ؎کی بدلتی صورت حا ل کی بنا پرہمارا موقف یہ ہے کہ ہم زیادہ رقم کیوں ادا کریں اور اپنا قومی پیسہ کیوں برباد کریں۔ وزیراعظم کے ترجمان کی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ قوم کی ایک ایک پائی کو بچانا ہر شہری کا فرض ہے لیکن اس ہزیمت کا کیا جو بحیثیت پاکستانی قوم ان مسافروں کو اُٹھانا پڑی جن کو عین پرواز کی اڑان بھرنے کے وقت ان کو سازو سامان سمیت اتار باہر کیا اور جہاز کو قبضے میں لے لیا اور ان متاثرہ مسافروں کو امارات کی متبادل پرواز کے ذریعہ ملک بھیجاگیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے جب پی آئی حکام کو  بین الاقوامی قانون کی عمل درآمدگی کا علم تھا تو کیوں ہٹ دھرمی سے کام لیا گیااور کیوں انٹر نشنل سطح پر قوم کو شرمندہ کر نے کا  موقع فراہم کیا گیا ۔اس واقعہ نے پی آئی کی گرتی ساکھ کو بڑھوتری فراہم کی ہے کیا جعلی پائلٹوں اور جعلی  لائسنسوںکا پنڈورا باکس کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ میں پی آئی  اے کی بندش اور مختلف انٹرنیشنل ایئر لائن کمپنیوں میں پاکستانی نژاد پائلٹوں کی بے روز گاری او ر امریکہ میں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کی نج کاری جیسے مسائل کم نہ تھے جو یہ شگوفہ بھی چھوڑنے کا موقع فراہم کیا گیا لیکن آج بھی آپ حکمران جماعت کے کسی بھی ذمہ دارسے قومی ہوائی کمپنی کی بد تر صورت حال پر بات کرلیں تو یہی جواب ملے گا’’ باقی سب ٹھیک ہے‘‘۔ باغوں اور یونیورسٹیوں کے شہر لاہور کی خوبصورتی کو نظر لگ گئی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپوٹ کے مطابق پاکستان کے شہر کی آبادی کا تناسب سالانہ 3.7%سے 7.4% تک بڑھ رہا ہے اور جب آبادی بڑھتی ہے وسائل اگر کم ہوں اور منصوبہ بندی  کا بھی فقدان ہو تو مسائل کا بڑھنا حقیقی ہوتا ہے مطلوبہ خوراک، روزگار، صحت اور دیگر شہری بنیادی ضروریات اپنی جگہ مگر نکاسی اور صفا ئی ستھرائی ایک اہم اور سنجیدہ مسلہ ہوتا ہے کہ کس طرح شہری آبادی کو صاف ستھرا خوبصورت رکھا جائے کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 20 20  کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے ایک عرصہ سے کوڑے کے مسئلہ باہر نہیں نکل سکا اور کراچی شہر کے سیاست میں کوڑا کو ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور موجودہ وقت میں لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے کی آبادی 2020 مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ چھبیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے لاہور اپنے صفائی ستھرائی اور خوبصورتی میں  اپناکو ئی ا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی عدم توجہ کی بنا پر کراچی کی ڈگر پر چلتا نظر آرہا ہے اور لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ گزشہ دو سالوں سے اپنی ناقص کارگردی کی بنا پر اس کی خوبصورتی کو داغ دار کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہی اور اس سنگین مسئلے کا ادراک مجھے تب ہوتا ہے جب میں ایک شہری حیثیت سے گزشتہ کئی ماہ سے کوڑے کی مناسب ترسیل اور صفائی ستھرائی میں شدید لاپروہی دیکھتا ہوں یہی وجہ کہ وہ نمایاں بازار اور علاقے جہاں آج تک کوڑا نظر نہیں آتا تھا وہاں پڑے کوڑے کے ڈھیر اور ان سے اُٹھتا ہوا تعفن لاہور میں بھی کوڑا سیا ست کی شنید سنارہا ہے۔ 
وہ کون سے محرکات ہیں جو صفائی جیسے عمل کو بھی سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں موجودہ ذمہ داران کو شہر کی صفائی ستھرائی کو مذموم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام کرنا چاہیے تاکہ شہر کو کوڑا سیاست سے دور رکھا جائے کیونکہ لاہور میںبس کوڑے کے انبار ہی تو ہیں ’’باقی سب ٹھیک ہے‘ُ‘  ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن