یہ رقم کیسے واپس ہو گی؟

گذشتہ پچیس تیس سال میں دنیا کے جن غریب ممالک کے حکمرانوں نے اپنے غریب عوام کا مال لوٹا، ان میں دس ایسے حکمران نمایاں ہیں جو طویل عرصہ تک حکومتوں میں رہے اور انھوں نے اپنے اپنے ملک کے اربوں ڈالر لوٹ کر بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع کرائے۔ بد عنوانی کے ایک ماہر جرمی سینڈبروک نے دنیا کے ایسے حکمرانوں کے بارے میں تحقیق کر کے بتایا ہے کہ جنھوں نے اپنے ممالک سے اربوں ڈالر لوٹ کر باہر منتقل کر دیئے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں لوٹی ہوئی کچھ دولت اور اثاثے اپنے ملکوں کو واپس بھی کرنا پڑے۔ جرمی سینڈبروک آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی میں بدعنوانی کے سلسلے میں لیکچر بھی دیتا ہے۔ اس نے دنیا کے دس حکمرانوں کی چوریوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بارے میں اس نے معلومات عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات اور جرائم سے حاصل کی ہیں۔ 
جرمی سینڈبروک کے مطابق یوکرائن کے وزیراعظم بیویلا لازنکو جو 1996 سے 1997 تک یوکرائن کے وزیر اعظم رہے، نے مبینہ طور پر دو سو ملین ڈالر قومی خزانے سے نکالے اور یہ پیسہ پولینڈ، سوئٹزر لینڈ اور اینٹی گوا کے بینکوں میں منتقل کیا اور اس رقم سے بیرون ملک جائیدادیں بھی خریدیں۔ یوکرائن کی حکومت کی کوششوں سے 2001 میں سوئس حکام نے کچھ رقم یوکرائن کو واپس کی۔ 2009 میں سابق یوکرائنی وزیراعظم کے خلاف کیلیفورنیا کی عدالت میں فراڈ کے الزام میں مقدمہ چلا اور اسے 57 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک ملین ڈالر جرمانہ بھی کیا گیا۔ وہ نومبر 2012 میں رہا ہوا۔ موصوف کے خلاف امریکہ ، لیتھوانیا اور سوئٹرزر لینڈ میں اب بھی Assets ریکوری کے کیسز چل رہے ہیں۔ 
انڈونیشیا کے سابق صدر محمد سوہارتو جو 1967 سے 1998 تک اکتیس سال انڈونیشیا کے صدر رہے، پر الزام ہے کہ انھوں نے 15 سے 35 ارب ڈالر ناجائز طور پر کمائے۔ مبینہ طور پر سوہارتو کی پوری فیملی مال بنانے میں لگی رہی۔ سرکاری ٹھیکے صدر کے بیٹوں اور عزیزوں کی کمپنیوں کو ملتے رہے۔ سوہارتو کی سوانح حیات لکھنے والے مصنف رابرٹ ایلسن کے مطابق سوہارتو کے دور میں بدعنوانی ایک فرنچائز کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ انڈونیشیا کی حکومت نے سوہارتو کی ناجائز دولت سے 307.4 ملین ڈالر کی واپسی کا کیس کیا۔ سوہارتو کے بیٹے ٹامی کو کرپشن پر انڈونیشیا کی عدالت نے سزا سنائی تو ٹامی نے سزا سنانے والے جج کو قتل کر دیا۔ 
فلپائن کے سابق صدر فرڈی نانڈو مارکوس کی کرپشن کے دنیا میں بڑے چرچے رہے۔ وہ 21 سال فلپائن کے صدر رہے۔ مارکوس کے دور میں فلپائن پر قرضے چڑھتے رہے۔ فلپائن پر 1962 میں 360 ملین ڈالر کا قرضہ تھا جو 1986 میں مارکوس کے اقتدار سے ہٹنے تک 28 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ مارکوس نے مبینہ طور پر 5 سے 10 ارب ڈالر کی خرد برد کی۔ مارکوس کی اہلیہ ایملڈا مارکوس بھی اپنے شوہر سے کم نہ تھی، اسے قیمتی جوتے رکھنے  کا خبط  تھا ۔ فلپائن کا یہ بدعنوان جوڑا اقتدار سے الگ ہوا تو شاہی محل سے قیمتی جوتوں کے ایک ہزار  جوڑے بھی برآمد ہوئے۔  ایملڈا  کو کرپشن پر 12 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ فلپائن میں مارکوس کے ناجائز اثاثوں کی ریکوری کیلئے جو کمیشن بنا تھا اس نے کامیابی سے 3.6 ارب ڈالر کے اثاثے قبضے میں لئے ہیں۔ حخزائرے جو جمہوریہ کانگو کہلاتا ہے، کے سابق صدر موبوتو نے 32 سال تک زائرے پر حکومت کی اور جرمی سینڈبروک کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے 6 ارب ڈالر چرائے۔ موبوتو کی رقوم اور اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے اب بھی کوشش جاری ہے۔ 2009 میں سوئس بینک نے موبوتو کے چھ ملین ڈالر سے زیادہ کے فنڈز ریلیز کئے جو جمہوریہ کانگو کو واپس مل گئے۔ نائجیریا کے سابق صدر تانی اوباچا پر مبینہ طور پر پانچ ارب ڈالر کی لوٹ مار کا الزام ہے۔ اوباچا نے 2002 میں ایک سمجھوتے کے تحت 1.2 ارب ڈالر کی رقم حکومت کو واپس کی۔ 
تیونس کے صدر زین العابدین نے ،جہاں سے ,,عرب سپرنگ،، کا آغاز ہوا، 23 برس کی حکمرانی میں اڑھائی ارب ڈالر پر ہاتھ صاف کئے۔ تیونس میں انقلاب شروع ہونے کے بعد وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ اب تک ان کی لوٹی ہوئی رقم سے 68.8 ملین ڈالر تیونس کی حکومت کو مل سکے ہیں۔ 
وطن عزیز کے سابق حکمران خاندانوں اور بعض بیوروکریٹس پر پیسہ بنانے کے الزام ہیں۔ مشرف دور میں پاکستان سے ناجائز طور پر پیسہ بنا کر بیرون ملک لے جانے اور اس پیسے سے بنائے گئے اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے ایک فرم براڈ شیٹ کی خدمات لی گئیں۔ آج کل براڈ شیٹ کا میڈیا میں بڑا چرچہ ہے۔ اس کے سربراہ ایرانی نژاد برطانوی شہری کاووے موسوی کے انٹرویوز بڑے شوق سے سنے جا رہے ہیں۔اس فرم کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کو یکطرفہ طور پر ختم کئے جانے کی بھی  پاکستان کو بڑی قیمت دینی پڑی ہے۔ اس فرم کو برطانوی عدالت کے فیصلے کے مطابق 28 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی ہے۔ کاووے موسوی کا کہنا ہے کہ جن پاکستانی سیاست دانوں اور دوسرے افراد کے اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے انھیں ذمہ داری دی گئی تھی وہ ان کا پیچھا کر رہے تھے کہ نیب نے ان کے ساتھ سمجھوتہ ختم کر دیا۔ یہ فیصلہ پاکستان کو مہنگا پڑا لیکن کسی کو پرواہ ہے کہ  یہ  رقم کسی کی جیب میں سے تو نہیں جائے گی۔ ابتک پاکستان بھارت سے اپنے دریائوں پر غیر قانونی بنائے گئے ڈیموں کے سارے کیس ہار چکا ہے، ریکوڈیک کا کیس ہار گیا جس پر پاکستان کو پانچ ارب ڈالر سے زیادہ رقم دینا پڑی۔ ترک تعمیراتی کمپنی سے بھی پاکستان کیس ہار چکا ہے ۔ یہ کیس جان بوجھ کر ہارے جاتے ہیں یا ہمارے پاس اہلیت رکھنے والے قانون دان نہیں  خدا جانے کیا ماجرا ہے؟ 
 دنیا کے وہ حکمران جن پر اپنے ممالک سے فراڈ کے ذریعے پیسے باہر لے جا کر اثاثے بنانے کا الزام ہے، ان سے ریکوری خاصا مشکل کام ہے۔ معلوم نہیں کہ جو رقم پاکستان سے غیر قانونی طور پر باہر بھیجی گئی ہے، وہ کیسے ملک میں واپس آئے گی، اس ضمن میں نیب اور اس کے Assets Recovery کے ادارہ اور اس کے سربراہ شہزاد اکبر کو بہت غور و فکر اور بڑی کاوش کرنا ہو گی۔ 

ای پیپر دی نیشن