حسیں اک بھی نہ دیکھا اْس سے بڑھ کر سب حسینوں میں
وہی اک مہ جبیں تھا صد ہزاراں مہ جبینوں میں
نہیں لازم کہ نذ ر ِ موج ِ طوفاں سب سفینے ہوں
جنہیں ہو ڈوبنا وہ ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
بہت ہی کم نظر تھے نکتہ چیں کْچھ اْس کی محفل میں
کوئی تو نکتہ داں ہوتا ہمارے نکتہ چینیوں میں
کہاں قسمت میں ہر اک کی مرے دل میں جگہ پائے
بس اک مہ رْخ مکیں ہے اب مرے دل کے مکینوں میں
کہاں اشک ِرواں میرے کہاں اشک ِ نہنگ ِ شر
خزف ریزے کہاں تْو ڈھونڈتا ہے اِن نگینوں میں
مری تو موسم ِ برسات میں آنکھیں برستی ہیں
کہ ابر ِاشک چھاتا ہے فلک پر اِن مہینوں میں
تقاضے تو محبّت کے کئی ہیں جعفری صاحب
وفا بھی اک قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں
ڈاکٹر مقصود جعفری