اس میں کوئی شک نہیں کہ سعید آسی ادب و صحافت کے میدان میں ایسے شہسواروں میں شامل ہیں جن کی ایک تاریخ او ر پس منظر ہے۔ میں نے سعید آسی کو جب جب بھی پڑھا ہے، اکتسابِ فیض کیا ۔ اُن کا قلم روشنی بکھیرتا اور اندھیروں میں اجالا کر دیتا ہے۔ اُن کی تحریر پڑھ کر ایک امید سی جاگ جاتی ہے، مایوسی اور ناامیدی کے سائے چھٹنے لگتے ہیں۔
اس وقت میرے سامنے ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ کے نام سے سعید آسی کے لکھے 115شاہکار کالموں کی 432صفحات پر مبنی ایک بہت ہی ضخیم کتاب موجود ہے۔ جسے قلم فائونڈیشن نے شائع کیا ہے۔ میں نے ایک ہی نشست میں آسی صاحب کے منتخب کالموں کے اس ضخیم مجموعے کو پڑھا ہے اور بغور مطالعہ کیا ہے۔ اسلوب تحریر اتنا اچھا اور جاندار ہے، الفاظ اور جملوں کے تسلسل میں اتنی چاشنی ہے کہ پڑھنے والا خودبخود آسی صاحب کے کالموں کی گہرائی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے بھی ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا اور شدت سے احساس ہوا کہ یہ کتاب اگر میرے زیرِ مطالعہ نہ ہوتی تو یقینا بہت سی جہتوں سے محروم رہتا۔
سعید آسی نے خود صفحہ گیارہ پر ’’حرفِ اول‘‘ لکھتے ہوئے کتاب اور اپنے آپ پر روشنی ڈالی ہے۔ زندگی کے بہت سے اوراق اور راز طشت از بام کئے ہیں۔ آسی صاحب لکھتے ہیں’’ مجھے اکثر یہ سوچ الجھائے رکھتی ہے کہ خالقِ کائنات، ربِ کعبہ کی منشاء اپنے بندوں میں کسی قسم کی تفریق یا امتیاز پیدا کرنے کی تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ بندوں میں امتیاز، اپنے رب کی تابع فرمانی، عبادت گزاری، نیک اعمال اور خالقِ کائنات کی مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کے حوالے سے تو ہو سکتا ہے اور یہی معاملات کسی انسان کے لیے جنت اور دوزخ کے ابدی ٹھکانے کا تعین کر تے ہیں۔مگر انسانوں میں امیری اور غریبی کا امتیاز کرنا انسان کی اپنی ذہنی اختراع یا فتور ہے۔
جب بھی مجھے آئین و قانون کے تحت قائم کسی سسٹم پر انسانی نخوت و تکبر حاوی ہوتا نظر آتا ہے تو میرا قلم سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ میں نے اپنے قلم کے اس احتجاج کو ہی منتخب کالموں کے نئے مجموعے ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ کے صفحات میں سمویا ہے۔ پاکستانی معاشرہ تشکیل دینے کے دعوئوں کے برعکس انسانی کسمپرسی اور بے حالی و بدحالی کے اندوہناک مناظر بھی اس کتاب میں شامل ہیں اور ان کی جھلک آپ کو ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ میں شامل کالموں میں نظر آئے گی۔‘‘
سعید آسی اپنے اندر ایک بہت ہی حساس اور دردمند دل رکھتے ہیں۔ کسی صورت انسانی امتیاز اور تحقیر انسانیت برداشت نہیں کرتے اور اُن کے کالم نہایت تسلسل کے ساتھ اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
سعید آسی کے منتخب کالموں کے اس مجموعے میں تمام کالم ہی اپنے اسلوبِ تحریر، چاشنی اور موضوع کے اعتبار سے باکمال ہیں لیکن کچھ کالم ایسے بھی ہیں جو یقینا تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ کیلئے ثبت ہو جائینگے۔ اِن کالموں میں فاضل عدلیہ کے گھر کا معاملہ، بھول کس سے ہوئی، پانچ جولائی کا جواز اور سبق، سابق حکمرانوں کی ’’خرابیاں‘‘، اے چاند یہاں نہ نکلا کر، پاکپتن کا سفر اور کیفیت ِ دل، تیری کیا اوقات ہے بندے، بات چل نکلی ہے، چھپن چھپائی کا سفاکانہ عمل، کرتار پور راہداری والی سرشاری، بسم اللہ کچھ کیجیے جناب!، اے کُشتہ ستم تیری غیر ت کو کیا ہوا ، اور ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہو گی‘‘ شامل ہیں۔کالم بعنوان’’ستمبر 65ء کا جذبہ اور آج کے حقائق‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ستمبر 65ء کی جنگ کے وقت میری عمر محض گیارہ سال تھی اور پرائمری کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن میں چھٹی کلاس میں داخل ہو چکا تھا۔ پاکپتن کا ماحول اس وقت تک بالکل دیہات والاتھا۔ اس وقت ہمیں بجلی کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی۔ اس لیے گھروں میں برقی قمقموں اور پنکھوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ٹی وی، فریج جیسی الیکٹرانک اشیاء تو بہت دُور کی بات تھی، گھروں میں مٹی کے دئیے اور لالٹین سے روشنی کی جاتی جبکہ گلیوں بازاروں میں کمیٹی والے کھمبوں پر مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی لالٹین دن ڈھلنے کے بعد روشن کر دیا کرتے تھے۔ زیادہ تر گھر مٹی کے گارے سے بنے ہوتے تھے اور بہت زیادہ باوسیلہ لوگ ہی پختہ اینٹوں سے گھر بنایا کرتے تھے۔ اس ماحول میں رات کو دیر تک جاگنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ محلہ پیرکریاں میں ہمارا گھر بھی چار پانچ مرلے پر مٹی گارے کا بنا ہوا تھا جس میں پانی کی سہولت ہینڈ پمپ (نلکے) سے حاصل کی جاتی تھی۔ گھر کے صحن میں بھینس باندھی جاتی اور گرمیوں میں چارپائیاں بھی اس صحن میں بھینس کے اردگرد ڈالی جاتیں۔ والد صاحب چودھری محمد اکرم (گولڈ میڈلسٹ تحریک پاکستان) مسلم لیگی ہونے کے ناطے محلے اور شہر کی سرگرمیوں میں بھی شریک رہتے تھے۔ اس وقت پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی۔ چنانچہ ہماری بیٹھک میں ہونیوالی نشستوں کا موضوع بھی پاکستان اور بھارت کے مابین پیدا ہونیوالی کشیدگی کی صورتحال کا مکمل احاطہ کرتا۔ اس وقت ہمیں مارشل لاء کے مضمرات کا کوئی زیادہ ادراک نہیں تھا۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر میں سیل سے چلنے والا ایک بینڈ ٹرانسسٹر ریڈیو تھا جس پر تازہ ترین خبروں کا بلیٹن سننے کیلئے محلے کے لوگ جمع رہتے۔انہی خبروں کے ذریعے 6ستمبر 1965ء کی صبح اطلاع ملی کہ بھارتی فوج نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ ہمیں اپنے گھروں کے باہر خندقیں کھودنے کی ہدایت بھی ریڈیو کے ذریعے کی گئی۔ جیسے ہی سائرن بجتا محلے کے لوگ خندقوں میں چلے جاتے۔ سائرن اس بات کی غمازی کرتا کہ دشمن کے جہاز اس وقت فضائی حملے کیلئے ہماری فضا میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘ یہ اسی کالم سے ایک مختصر اقتباس تھا۔
آپ جیسے جیسے کالم پڑھتے جاتے ہیں دل ہی نہیں کرتاکہ کالم چھوڑ کر کوئی اور کام کیا جائے۔ اسی طرح عاصمہ جہانگیر، زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو پر بھی سیر حاصل اور معلوماتی کالم اس کتاب میں شامل ہیں۔ ٹرمپ اور مودی کے حوالے سے بھی دو کالم اس مجموعے کا حصہ ہیں۔سعید آسی کا اسلوب تحریر اتنا خوبصورت اور دلکشا ہے کہ کتاب چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔ سینئر کالم نگاروں مجیب الرحمن شامی، عطاء الحق قاسمی، عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے سعید آسی کے حوالے سے جن اچھے اور معتبر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اُس سے کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اگرچہ اسکی قیمت پندرہ سو روپے رکھی گئی ہے۔ لیکن کتاب کی اعلیٰ تزئین و آرائش اور بہترین آفسٹ پیپر پر اسکی طباعت کے مقابلے میں یہ قیمت بہت کم محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کا سرورق بھی عمدہ ڈیزائن کیا گیا ہے اور تخیلاتی اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے۔ ادب کی دنیا میں ’’اشرافیہ اور عوام‘‘ ایک اچھا اضافہ ہے۔ جسے ایک زمانہ پڑھے گا اور یاد رکھے گا۔ سرکاری سطح پر بھی اس کتاب کو پذیرائی ملنی چاہیے کیونکہ اس میں بہت معلوماتی مواد موجود ہے۔اگر یہ کتاب ملک بھر کی سرکاری لائبریریوں کی زینت بن جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
الفاظ اور جملوں کے تسلسل کی چاشنی
Jan 17, 2022