سیاست کی ندی میں موج مستی

Jan 17, 2022

 شاعروں کو بہت آزادی ہے ۔ بہت سی آزاد خیالی اگر نثر کی بجائے قافیہ ردیف کی پوٹلی میں باندھ لی جائے تو قابل دست اندازی پولیس نہیں رہتی۔ پھر تو داڑھی عمامے والے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے ۔ من موج میں گستاخی کی حدوں کو چھوتی ہوئی بے تکلفی بھی محبت کی اک ادا مان لی جاتی ہے۔  
؎گستاخی و بے باکی، رمزیں ہیں محبت کی 
ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بے باک 
پھر شاعروں کو لفظوں کا تلفظ بھی حسب ضرورت ڈھالنے کی اجازت ہے۔ انہیں یہ شاعرانہ ’’اختیار‘‘ گرائمر میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کی اجازت بخشتا ہے۔ ادھر ہمارے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی آزادی شاعروں سے چار ہاتھ آگے ہے ۔ یہ چاہیں تو عمران خان کی طرح سینیٹر اعجاز چودھری جیسا اپنی پارٹی کا صوبائی صدر مقرر کر سکتے ہیں۔ خوشونت سنگھ نے امرتا پریتم سے کہا تھا کہ تمہاری آب بیتی کا کیا ہے ؟بس ایک حادثہ لکھنے بیٹھیں تو رسیدی ٹکٹ کی پشت پر لکھی جائے۔ رسیدی ٹکٹ شاید اس لئے کہ باقی ٹکٹوں کا سائز بدلتا رہتا ہے لیکن رسیدی ٹکٹ کا سائز اک زمانے سے وہی ہے ، چھوٹا سا ننھا منا۔
 ادھر سینیٹر اعجاز چودھری کی ساری  رام کہانی بس اتنی سی ہے ۔’’ وہ سنٹرل پنجاب کی صدارت سے اتر گئے ۔ ان کے تمام بنک قرضے بھی اتر گئے‘‘۔ بنک قرضے کسی کے بھی ہوں ‘ دوست کے یا دشمن کے ، اتر جانے میں ہی بھلا۔ 2013ء کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر یار لوگوں نے سینیٹر اعجاز چودھری پر بدگمانیوں کا اظہار کیا تھا۔ ان حاسد اور کم ظرف لوگوں کا کیا ہے یہ ہمیشہ ترقی اور خوشحالی پر جلتے ہی پائے گئے۔ اعجاز چودھری نے انہیں عرفی کے فارسی شعر کی شکل میں جواب دیا تھا کہ بندے کو کتوں کے بھونکنے کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ۔ ان کا شور شرابا گدا کا رزق کم نہیں کر سکتا۔ 
کالم نگار آج تک سمجھ نہیں پایا کہ لالچ کتے میں زیادہ ہے یا پھر گدا میں ؟ اوپر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور حاکموں کی آزادی کا ذکر ہوا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہی یہ سوال زیر بحث رہا ہے کہ کسی ملک کے لئے مالی کرپشن زیادہ نقصان دہ ہے یا نا اہلیت ۔
 ایک رائے کرپشن کو زیادہ مضرگردانتی ہے ۔ دوسری رائے میں نا اہلیت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ مری میں برفباری کے باعث اک قیامت صغریٰ کا منظر پیدا ہوگیا ۔ 23اموات کچھ کم نہیں ہوتیں۔ یہ اموات واضح نا اہلی تھی۔ بہر حال یہ نا اہلی چھپانے کیلئے برفباری کی مقدار بڑھائی گئی۔ لیکن بات بنی نہیں ۔برفباری کی صورت میں کئے جانے والے اقدامات کیلئے بلائی گئی کسی میٹنگ میں صوبائی حاکم ،کمشنر، ڈپٹی کمشنر شریک نہیں ہوئے ۔ کوئی میٹنگ ہوتی تو شرکت کا مرحلہ بھی آتا۔ مری کے ہوٹل مالکان کی لوٹ مار کچھ ان سے ہی خاص نہیں ۔ 
ہمارے کاروباری طبقہ کی مجموعی کاروباری ذہنیت یہی ہے کہ نفع اور اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ایک عرصہ سے مصری عالم دین سید قطب شہید فرما رہے ہیں کہ غیر منصفانہ شرح منافع سود کی مانند ہی حرام ہے۔ ان کی آواز ابھی ہندوستان تک پہنچی بھی نہیں ۔
 ہمارے علمائے دین امام ابو حنیفہ کا قانون حجر بھی چھپائے ہوئے ہیں ۔ اس کے مطابق ریاست کسی شخص کو رزق حلال میں کمائے ہوئے سرمایہ کو اس طرح استعمال میں لانے سے روک سکتی ہے جس میں دوسروں کی دل آزاری کا سامان ہو۔ لیکن ہم فقہ کے مسائل بھی اپنی مرضی سے حل کرتے ہیں۔ اک دوست بتا رہا تھا کہ میں سود کو حرام سمجھتا ہوں۔ لیکن اپنے اکائونٹس کا سود بنک والوں کے پاس کیوں پڑا رہنے دوں ۔
 سرکاری افسروں کو جب بھی رشوت دینی پڑتی ہے میں یہ سود ہی استعمال میں لاتا ہوں ۔ ہماری سیاسی فراست کی داد دیجئے ۔ ہم نے سانحہ مری کا حل یوں نکالا ہے ۔ مری کو ضلع بنا دیا جائیگا۔ ایک ڈپٹی کمشنر ایکـ ڈی پی اواور چند دیگر افسران ۔ پھر جواں عمر حافظ قرآن فرحت عباس کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا سیاسی امور کا مشیر مقرر کر لیا گیا ہے ۔ جواں عقل بڑی طاقتور ہوتی ہے ۔ وہ جھٹ سے ہر مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالتی ہے ۔ 
 حافظ فرحت عباس بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہر مسئلہ کا سیاسی حل پیش کر دیا کریں گے۔ریلوے کے ایک مشیر سے پوچھا گیا ۔ اگر ریلوے کے تمام سگنل کانٹے تمام حکم ماننے سے منکر ہو جائیں ۔ ٹرین سیدھی دوسری ٹرین سے ٹکرانے والی ہو اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہے تو آخری چارہ کار کے طور پر تم کیا کروگے؟ بولا۔ میں فوراً گھر سے اپنے چھوٹے بیٹے کو بلا لوں گا۔ پوچھا گیا ۔ وہ چھوٹا بیٹا اس مرحلہ پر کیا کرے گا؟ 
مشیر نے جواب دیا۔ اسے کیا کرنا کرانا ہے۔ دراصل اسے ٹرینوں کی ٹکر دیکھنے کا بہت شوق ہے ۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون عدالتوں سے ریلیف لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے اراکین اسمبلی کی تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ میںدرخواست دائر کر دی ہے ۔
ایک اخباری بیان میں بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ مثبت عدالتی فیصلے کے اگلے روز ہی میاں نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے ۔  اسلام آباد سے معروف کالم نگار آصف محمود معترض ہیں کہ کسی شخصیت کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ ایک اصول کی بنیاد پر درخواست دائر کی جانی چاہئے تھی۔ آصف محمود کی خدمت میں عرض ہے کہ ادھر اصول نہیں بندے ہی اہم ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم بھی اک انفرادی ضرورت محسوس کرتے ہوئے منظور کی گئی تھی ۔ مولانا روم نے فرمایا۔ 
میرے محبوب کل کے لفظ کل کے ساتھ گزر گئے اور اب نئے لفظ بولنے کا وقت ہے ۔ آج کی بات بقول جنرل باجوہ یہی ہے کہ ملٹری سیکورٹی قومی سلامتی کا صرف ایک پہلو ہے ۔ کالم نگار عرض کرتا ہے ۔ جنرل باجوہ براہ راست سیاست میں نہ آئیں لیکن سیاست کو راہ راست پر ضرور لائیں۔کالم نگار نے سیاست دانوں کی بجائے لفظ سیاست برتا ہے ۔ پاکستان میں سیاست پر صرف سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا اجارہ نہیں ۔ اس ندی میں ہرکوئی موج مستی کرتا چلا آتا ہے ۔ 
٭…٭…٭

مزیدخبریں