سانحات کا پاکستان

Jan 17, 2022

ہر انسان کی زندگی میں کچھ مقامات ایسے آتے ہیں جب دکھ اور غم اس نہج پر آجاتا ہے کہ اظہار مشکل ہو جاتا ہے۔ ان سانحات کی نوعیت کبھی انفرادی ہوتی ہے تو کبھی اجتماعی۔ گو کہ درد و الم کی یہ کیفیات ابدی نہیں ہوتیں، وقت کے ساتھ یہ گھاؤ بھر جاتے ہیں لیکن یہ ہمارے ظاہر یا باطن پر انمٹ نقوش ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ مجھ سے پہلے ایک نسل نے پاکستان بنتے وقت کے فسادات اور ہندوؤں اور سکھوں کی قتل و غارت گری سے جنم والے المیوں کو دیکھا۔ ہم نے درد کی یہ داستانیں سنیں اور اس کرب کو محسوس کیا۔ اپنا الگ وطن ملنے کی خوشی نے ان زخموں پر مرہم رکھے سب درد مٹ گئے لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھا تو اسکے ساتھ ایک احساس بھی پنپتا رہا۔ یہ احساس ان قربانیوں کے عوض ملنے والی آزادی ، خوشحالی اور حقوق کا تھا جو ہمیں ملنا تھے۔ خدائے رب کریم کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہو گا کہ ہم ایک آزاد مملکت کے باسی ہیں لیکن خوشحالی اور حقوق کے حصول کے آگے ایک طویل صبر ہے جو آج تک جاری و ساری ہے۔اس دوران اس وطن عزیز پر بیتنے والے سانحات الگ سے روح کا بوجھ ہیں۔ ملک پر تین مارشل لاؤں کا سایہ، 71ء میں وطن عزیز دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، 8 اکتوبر کے زلزلے نے پوری قوم کو درد میں ڈبو دیا۔ سانحہ اے پی ایس کی یاد ہر لمحہ دل چیرنے کو کافی ہے۔ کئی دہائیوں مسلسل دہشت گردی کا عذاب سہا ہے اس قوم نے۔ ہزاروں پاکستانیوں شہید ہوگئے اور اب یہ سانحۂ مری، جس میں کئی خاندان اجڑ گئے۔ یقین جانیے دنیا میں ایسی آفات بھی گزری ہیں جنھیں روکنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا لیکن دوسری بار ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاری ضرور کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں روش اسکے بالکل بر عکس ہے۔ سیلاب آئیں، ہیٹ ویو آئیں، زلزلے آئیں یا دیگر آفات ہم ہر بار ایک ہی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔ اب کیا کریں؟ دوسرا ہماری تمام تر پھرتیاں حالات خراب ہو جانے کے بعد شروع ہوتی ہیں۔
مری میں پیش آنیوالے جان لیوا حادثے کو روکا جا سکتا تھا لیکن ہم نے یہ سب ہونے دیا۔ حکومت وقت تھوڑی سی توجہ دیتی تو مری کے برفانی طوفان میں پھنس کر 22 افراد کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ 5 فروری کو وزیر اطلاعات فواد چودھری کا ٹویٹ آیا کہ ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہے اور تقریباً ایک لاکھ گاڑیاں کوہسار مری کا طواف کرنے پہنچ چکی ہیں۔ اس کا مطلب حکومت اس بات سے پوری طرح واقف تھی کہ ایک جم غفیر مری کی طرف رواں دواں ہے جبکہ موسم کی اطلاعات یہ بتا رہی تھیں کہ مسلسل برف باری کا امکان ہے تو ایسے میں پوری حکومتی مشینری کس طرح خواب غفلت میں مبتلا رہی؟ افسوسناک حیرانی اس بات کی ہے کہ سب سے زیادہ اموات جس علاقہ (کلڈنہ)میں ہوئیں وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں برف کی صفائی میں دیر ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔ ماضی میں بھی کئی بار بہت زیادہ برف باری ہوئی لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ 24 گھنٹے سے 48گھنٹے تک لوگ برف باری کی وجہ سے سڑک پر اپنی گاڑیوں میں پھنس جائیں اور اس دوران برف ہٹانے یا ان کی مدد کے لیے کوئی آئے ہی نا۔گزشتہ ادوار میں چاہے وہ شہباز شریف کی حکومت ہو یا پرویز الٰہی کی کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے۔ ان ادوار میں وزرائے اعلیٰ برف باری سے قبل مری کے بارے میں باقاعدہ میٹنگ کرتے تھے، پالیسی کا جائزہ لیتے تھے، مری کے محکموں کو فنڈز جاری کرتے تھے، انتظامیہ کو فعال کیا جاتا تھا لیکن اس بار مری میں برف باری کے موسم کے لیے پنجاب حکومت نے کوئی ایک بھی اعلیٰ سطح کی میٹنگ نہ کی۔ مری کا اسسٹنٹ کمشنر، ایک ڈی ایس پی اور پولیس اہلکاروں کے  کے ساتھ سڑکوں پر برف ہٹانے کی کوشش کرتا دکھائی دیا جبکہ صوبائی حکومت کی وہ دلچسپی نہ تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ کلڈنہ، مری، جھیکا گلی، سنی بنک وغیرہ جیسے علاقے جو سب کے سب چند ایک کلومیٹر کی حدود میں آتے ہیں، ان علاقوں کے اطراف کی سڑکوں کو لگاتار صاف کرنا کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا۔ اگر برف باری کے دوران سڑکوں کوکلیئر کرنے کا کام اس لیے روک دیا جائے کہ جب برف باری رکے گی تو صفائی کریں گے تو پھر اس سے تو بحرانی صورتحال پیدا ہونا ہی تھی۔ نتیجہ سب کے سامنے آیا کہ گاڑیاں برف میں پھنس کر دب گئیں۔ گاڑیوں کے ایگزاسٹ برف سے بند ہونے کے باعث کاربن مونو آکسائیڈ گیس بھر جانے سے 22 اموات ہوئیں لیکن اگر سڑکوں کے صفائی ہو رہی ہوتی تو یہ اموات روکی جاسکتی تھیں۔
موجودہ دور حکومت میں اب تک مری کے دس سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ بیڈگورننس کا معاملہ ہے جس پر خان صاحب کو غور کرنا ہو گا۔ اس حادثے کی ذمہ داری سیاحوں پر ڈالنے کی بجائے حکومت کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ مری میں فیملی سمیت جاں بحق ہونے والے اے ایس آئی نوید اقبال نے اپنے ڈی آئی جی کو فون پر مدد کی اپیل کی۔ مرحوم کی بہن نے اے ایس پی مری کو بھی فون پر حالات سے آگاہ کیا لیکن کوئی بھی مدد کو نہ آسکا۔ حادثے کے بعد وزیراعظم، وزراء اور مشیران کے ٹوئٹر اکاؤنٹ حرکت میں آ گئے، وزیر داخلہ سڑک پر کھڑے گاڑیاں کلیئر کرانے کی فوٹیج بنواتے رہے۔ ایک مشیر باتدبیر بھی مری پہنچ کر سڑک سے گاڑیاں ہٹوانے کے تصویریں پوسٹ کر تے رہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی کمال پھرتی سے ہیلی کا پٹر پر سوا ر فضا سے جا ئزہ لینے جا پہنچے لیکن کیا ان سب پھرتیوں سے وہ زندگیاں لوٹ سکتی ہیں ؟ اب اس سوال کا جواب صرف ایک سنجیدہ انکوائری سے دیا جاسکتا ہے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو اور آئندہ ایسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو۔

مزیدخبریں