بچے کی پیدائش کے وقت اگر موسم معتدل یا گرم ہے توکمرے کی کھڑکی کھول دیں۔ سردیوںمیں اگر کھڑکی کھولنی ہے تو اس کا رخ اس طرح ہو کہ ہوا کا براہ راست بچے یا ماں پراثر نہ پڑے۔ دیہاتوںمیں ماں اور بچے کے کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے تازہ ہوا کے تمام راستے بند کردیے جاتے ہیں۔ یہ غلط طریقہ ہوتاہے اس طرح بچے کے پھیپھڑے میں جمع شدہ خون جب سانس کے ذریعے کثیف گیس اور ہوا باہر چھوڑتاہے توجواب میں ہوا بھی پھیپھڑوں کے اندر آلودگی بھری سانس بھیجتی ہے۔ اس طرح بچے کا نہ تو خون صاف ہوسکتاہے نہ پھیپھڑے اپنا کام درست طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ بچہ کی آنکھوں کے پیوٹے بوقت پیدائش جھلی کی طرح ہوتے ہیں اور روشنی زیادہ مقدار میں اسکے آرپار ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بچہ نیند لے رہا ہو تب بھی روشنی اور گیس اسکی آنکھوں کو متاثر کرتی ہے بے شک یہ حالت چند ہفتوں تک رہتی ہے کیونکہ ماورشکم میں بچہ روشنی سے مانوس نہیں ہوسکتا۔ بچے کی آنکھوںکی حفاظت کیلئے اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے اگربچے کے کمرے میں تیزروشنی ہوتو بچے کے اطراف آنیوالی روشنی کے آگے پردہ سا ڈال دیں تاکہ روشنی اس سے منعکس ہوکرپھیل جائے اور بچے کے حساس نرم پتلے پیوٹے اس سے متاثرنہ ہوسکیں۔
اسی طرح بچہ کسی آواز سے مانوس نہیں ہوتا نہ بلند آواز کا متحمل ہوسکتاہے اسکے کان کے پردے بہت نازک ہوتے ہیں اس لیے بے جا اور تیز شوروغل سے بچوں کو دور رکھیں۔ کچھ ہفتوں بعد وہ آواز کو آہستہ آہستہ برداشت کرنے لگتاہے مگر اچانک پیدا ہونیوالی تیز آواز یا شور بچے کو نہ صرف خوفزدہ کردیتاہے بلکہ ایسی حالت میں پردے میں ورم آنے یا پردے بھاری ہو جانے کا اندیشہ ہوتاہے۔ پیدائش کے فوراً بعد اذان کا اسلامی طریقہ اپنایاجاتاہے تو اس کیلئے یہ احتیاط لازمی ہے کہ بچے کے کان میں آہستگی کے ساتھ اذان دی جائے کہ ذرا سی غلطی پر اگرکان میں ورم آجائے توکان بہنے لگتاہے اور بچے کے بہرے ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ الغرض نومولود کا ہرعضو انتہائی نازک ہوتاہے وہ کسی بیرونی تیز آواز تیز روشنی کا متحمل نہیں ہوپاتا۔اس وقت ماں چونکہ خود بچے کی حفاظت کرنے کی حالت میں نہیں ہوتی اس لیے ان باتوں کا خیال اسکے اطراف کے لوگوں کو رکھنا چاہیے۔ یہ بھی عموماً ہوتاہے کہ پیدائش کے بعد سب کی توجہ بچے کی طرف ہوجاتی ہے اور ماں کو بڑی حد تک نظرانداز کردیاجاتاہے جبکہ ماں کو بھی اتنی ہی توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی مائوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میںمائیں بچے کو اوپرکا دودھ لگادیتی ہیں اور اپنا دودھ آہستہ آہستہ بالکل چھڑا لیتی ہیں اس طرح جو بہت تھوڑی مقدار شروع میں دودھ کی آتی ہے وہ بھی نہیں بنتا اور بچہ ماں کے دودھ سے محروم ہوکر قدرتی توانائی سے محروم ہو جاتاہے۔ یہ نامناسب طریقہ ہے جبکہ ایسی حالت میںماں کو خود دودھ زیادہ پینا چاہیے اور دودھ ہرگزنہیں چھڑوانا چاہیے اس طرح دودھ آہستہ آہستہ زیادہ ہونا شروع ہو جاتا ہے یہ صرف اکثر پہلے بچے کی پیدائش پر ہوتاہے وہ بھی ماں کے شوق اور صحیح طریقے سے ٹھیک ہوسکتاہے۔ اکثرگھرانوںمیں چھوٹے بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے آنے والے نومولود سے بڑی یا بڑا دوتین سال کا بچہ اپنی دانست میں اس چھوٹے کھلونے سے پیارکرنے میں نقصان کا سبب بنتاہے۔ وہ بچے کے منہ میںماں کی غیرموجودگی میں دھوئے بغیرفیڈر ڈال دیتاہے بچہ جیسے ہی روتاہے فوراً اس کو چپ کرانے کیلئے وہ اپنے مختلف محبت بھرے طریقے اپناتاہے جس میںمنہ پہ چڑھ بیٹھنا ،بچے کو اٹھانے کی کوشش کرنا ،کوئی بھی پاس پڑی چیز بچے کے منہ میں ڈال دینا تاکہ وہ خاموش ہوجائے۔ اس لیے بچے کے پاس چھوٹے بچے کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ ویسے اگر بچوں کی پیدائش میںمناسب وقفہ ہوتو آنے والے نومولود کیلئے بڑا بہن یا بھائی جو کم سے کم چار سال بڑا ہو بہت پیارکرنے والا اور دیکھ بھال کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے۔ مگرہمارے ہاں بچوں کی پیدائش میں وقفہ بہت کم رکھاجاتاہے یعنی ایک سال سے ڈھائی سال کا اور دوسرایہ بھی کہ گھر میںہردوسرے سال بچوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اس طرح اگر ایک بچہ نومولود سے چھ سال بڑا ہے تو نومولود سے تین سال سے ایک سال بڑے ہونیوالے بہن بھائی بھی موجودہونگے اسی صورت میںماں کن کن کاخیال رکھے گی۔ اسی لئے بچے کی صحیح تربیت دیکھ بھال اور نشودنما کے ساتھ ماں کی اپنی صحت کیلئے بہبود آبادی کے پروگرام کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی پہ عمل ایک دانشمندانہ فعل ہے۔(ختم شد)