اسلام آباد سے کراچی تک؟

آل سندھ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کی دعوت پر میں جب کراچی ائیرپورٹ پر اُترا تو نئے  عیسوی سال کا آغاز ہوچکا تھا پرویز ہارون اور سیدمحمد سرفراز نے ائیرپورٹ پر استقبال کیا اورہوٹل پہنچایا جہاں تمام صوبوں کے قائدین پہلے ہی پہنچ چکے تھے ۔وفاقی داراحکومت سے روانگی پراسلام آباد کا ٹمپریچر منفی ایک تھا جبکہ کراچی ہوٹل کے کمروں میں اے سی آن تھے ۔ کانفرنس  پاکستان بھر کے 42کینٹ ایریازسے ہزاروں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے تھی۔ حیدرعلی بھائی نے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت کانفرنس کے شرکاء کا سندھی اجرک سے استقبال کیا اور باہر سے آنے والے تمام سربراہان کو پہلے خطاب کا موقع فراہم کیا جو احباب کسی وجہ سے نہ پہنچ پائے ان کے لئے ویڈیولنک کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔کانفرنس کے اختتام پرمیڈیا کے سامنے متفقہ اعلامیہ پیش کیا گیا  ۔ شام کو کراچی کے ایکسپو سنٹر میں پاکستان کی سب سے بڑی کُتب کی نمائش (16ویںکراچی بُک فئیر) کو دیکھنے کے لئے شرکاء کو لے جایا گیا جہاں پاکستان پبلشر ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے استقبال کیا ۔میں حیران تھا کہ ایک جانب بچے، جوان ، بوڑھے، مرد وخواتین کا جم غفیرکتاب دوستی کو عملی مظاہرہ کررہا تھا  اور دوسری جانب ادبی حلقوں کے ذمہ داران ، حکومتی عہدیداران اور تعلیمی ماہرین نے بھی اس نمائش کو چار چاند لگائے ہوئے تھے ۔ رات کو کورنگی میں سید سرفراز کی ہمشیرہ کے ایصال ثواب کی دعا اور تعزیت کیلئے ان کی رہائش گا ہ پر گئے۔ اس کے بعد کورنگی کے مشہور مچھلی والے ہوٹل پر انور بھائی اور وجاہت نے عشائیہ کااہتمام کیا ۔ دوسرے دن پاکستان آلائنس آف آل پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنز کے جنرل سیکرٹری سید طارق شاہ نے ہمیں ہوٹل سے پِک کیا اور کراچی کے بڑے بڑے ہائوسنگ منصوبوں کا دورہ کرواتے ہوئے بلاول ہائوس دیکھایا۔ عبداللہ شاہ غازی کے دربار کا راستہ ملک ریاض کے تائیکون کی وجہ سے کیسے تبدیل ہوا ۔دودریا پر سنڈے برنچ کے بہانے تین گھنٹے نواز پندرانی اور میں نے شاہ صاحب کی سندھ کی تنظیموں کو پیپسا کے ساتھ مل کرقومی سطح پر کام کرنے کیلئے سمع خراشی کی۔مستقبل میں ہم خیال اور متحرک تنظیموں کو کیسے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کیا جاسکتا ہے؟  نجی شعبہ تعلیم کو کیسے ہر سطح پر اسٹیک ہولڈر تسلیم کروایا جاسکتا ہے؟ اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نیشنل لیول پر اور صوبوں کی سطح پر درست ڈیٹا کیسے مرتب کیا جاسکتا ہے؟ جیسے سوالوں کو پیپسا کے آئیندہ ایجنڈے پر رکھ کر مکمل رپورٹ شائع کرنے پربھی اتفاق ہوا۔ پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک اسلام آباد نے جہاں دو دہائیوں سے بچوں کی نصابی و ہم نصابی درجنوں سرگرمیوں کو اپنے نصب العین کا حصہ بنایاہوا ہے وہاں حال ہی میں اسلام آباد بانڈو ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لاکر طلبہ کو ذاتی دفاع کی تربیت کے پروگراموں میں شامل کیا جارہا ہے کرونا وباء کے دوران بھی دو سالانہ چیمپئین شپ کا اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا ۔اس تحریک کے سرپرست اعلیٰ بین الاقوامی ہیروگرینڈماسٹرمحمداشرف طائی سے ان کے کلب میں قائدین کے ہمراہ تفصیلی ملاقات ہائی ۔پاکستان میں ان کے نظریے اور مشن کو درسگائوں تک کیسے پھیلایا جاسکتا ہے؟ نیز اس ڈیجیٹل دور میں بانڈو کے مقامی سطح پر کلب قائم کرکے ان کی ایسوسی ایشنز کا قیام اور قومی سطح پر فیڈریشن کے ساتھ الحاق کی پالیسی کو بھی زیر بحث لایا گیا ۔گرینڈ ماسٹرمحمد اشرف طائی نے تمام شرکا ء میں ایوارڈ ز بھی تقسیم کیے۔ گابا پبلشرز کے  راشد صاحب کے ساتھ ارینا کراچی میں پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے عشائیے میں ملاقات ہوئی نیز ایسوسی ایشن کے تمام ٹاونز کے ذمہ داران سے بھی یہاں ملاقات ہوئی۔کراچی میں آخری دن اس دفعہ پہلے سے پروفیسر ڈاکٹررائدافضل کے لئے مختص تھا جس میں ان کے نئے پراجیکٹ اور ہمارے دیرینہ خواب کو فائنل شکل دینا مقصود تھا۔ مادروطن کو تعلیمی شعبہ میں جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں سے ایک ناخواندگی بھی ہے ۔
یہاں سرکاری سطح پر خواندگی کمیشن سے لیکر چار دہائیوں میں درجنوں رسمی اور غیر رسمی منصوبوں کے ذریعے قومی خزانے کو کتنا نقصان ہوا؟ عالمی امداد کتنی خرد برد ہوئی؟ اوراٹھارویں ترمیم کے بعد MDGs و SDGsکے اہداف کے ساتھ کیا مذاق ہوئے یا ہورہے ہیں؟ زیر بحث لانا مقصود نہیں ۔ اس ملاقات کا مقصد کروڑوں ان پڑھ نوجوانوں کو اپنی مددآپ کے تحت روزانہ دوگھنٹے وٹس اپ ایپ کے ذریعے ایک سال میں پرائمری، ایک سال میں مڈل اور دو سال میں میٹرک کا پروگرام تھا ۔ لٹریٹ پاکستان کے اس پراجیکٹ کو نجی تعلیمی اداروں کے تعاون سے کامیاب بنانا ہے۔  لٹریٹ پاکستان کی ٹیم کے علاوہ پیشے کے لحاظ سے انجینئرنیشنل فوڈزکے مالک عبدالمجید صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو ناخواندگی کے خلاف جہاد میں کئی دہائیوں سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور اب اس پراجیکٹ کو اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے تمام مسائل کا حل عبدالمجید صاحب تعلیمی ترقی سے منصوب کررہے تھے۔ اس قومی سطح کے پراجیکٹ پر بات چیت کرتے ہوئے اسٹوڈیوکی ریکارڈنگ روک کر ورکنگ لنچ کیا گیا ۔ اس کے بروشر کو فائنل کیا گیابورڈ امتحانات کی مشکلات پر بات ہوئی ۔میری فلائٹ کا وقت ہوچکا تھا بڑی تیزی سے سر رائد نے مجھے ائیر پورٹ پہنچایا۔ان تین دنوں میں ایک بات بڑی کُھل کر سامنے آئی کہ پاکستان کا ہر شہری تعلیمی ترقی میں اپنے حصے کی شمع جلانا چاہتا ہے اور ہمارے تمام اہلِ اقتداروہ صوبائی ہوں یا مرکزی زبانی دعوے وہ بھی اسی طرح کے کرتے ہیں جبکہ عمل بالکل اس کے برعکس کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن