امام علی ؓ فرماتے ہیں ’’ ایک دوسرے کو دعا دیا کریں ہوسکتا ہے تمہاری چھوٹی سی دعا سے کس کا بڑا کام ہوجائے‘‘ دعاء پر یقین ضروری ہے۔ دوسروں کیساتھ اپنے لئے بھی دعائیں مانگا کریں ،دعائوں کو مانگنے کی عادت بنا لیں۔خوبصورت زندگی کا راز یہی ہے دعا کی جائے اور دعا لی جائے۔ بعض لوگ بھی خدا سے اپنے مطلب کی دعائیں کرتے ہیں ۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ پہاڑی کے دامن میں ایک گائوں تھا ۔ راستہ بڑادشورا گزار تھا اکثرگاڑیاں گائوں میں آ کر گر جایا کرتیں ۔ چند لوگ گاڑیوں کے گزرتے ہی لوٹ مار شروع کر دیتے یہی ان کا ذریعہ معاش تھا کچھ عرصے کوئی حادثہ نہ ہو تو سارا گاوں اکھٹا ہو کر یوں اجتماعی دعا پڑھتا ’’اے پروردگار بہت عرصہ ہوا ہے کسی گاڑی کو حادثہ نہیں ہوا ہے۔ کوئی باراتیوں کی بس گرا دے ، جن کی عورتیں سونے سے لدی ہوئی ہوں۔اے رب کریم کوئی برطانیہ پلٹ کی گاڑی یہاں گرا دے جس کا بیگ پائو نڈ سے بھرا ہو ہم تیرے نادان بندے ہیں ہم سے کوئی بھول ہوئی ہو تو رحم کا معاملہ کر ورنہ ہمارے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ اس پر سب آمین آمین کہتے۔ کہاوت ہے کہ کسی کے شر میں کسی کی خیر ہوتی ہے۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ لگتا ہے کہ جب سے ملک بنا ہے ہم بھی دوسروں کے شر میں اپنی خیر مناتے چلے آ رہے ہیں ۔ہم نے خود سے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے اپنے ادارے مضبوط نہ کئے نہ انڈسٹری بنائی تعلیم انصاف اور صحت کسی شعبے پر محنت نہ کی ۔جس کی وجہ سے سب کا برا حال ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پچاس کی دہائی میں ہم نے سیٹو سینٹو کے مزے بھی شر میں خیر منائی ۔ ساٹھ کی دھائی میں سرد جنگ میں بڈھ بیر میں یو ٹو طیاروں کو اڈے دیکر یہی فارمولا اپنایا، ستر کی دہائی میں عرب اسرائیل کی جنگوں میں مفت تیل کے مزے لوٹے ، اسی کی دھائی میں سویت یونین افغانستان سے شر سے خیر منائی ۔ دوہزار میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ۔اس پر بھی ڈالروں کی شر سے خیر منائی ۔شر سے خیر منانے کی اس عادت نے مری کے لوگوں کو بھی لطف دیا ۔کافی عرصے سے ہمارے ارد گرد کوئی شر نہیں ہو رہا۔ کئی لوگوں کا معیار زندگی جانوروں سے بد تر ہوچلا ہے۔تین سال سے سارا ملک مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ منی بجٹ کو لایا گیا جس سے مزید مہنگائی کے بم گرائے۔ اب وقت پھر آ گیا ہے کہ عوام شر سے خیر منائیں اور دعا کریں ۔ پرور دگار ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر ماضی جیسے ہماری مدد نہ کی تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔یہاں فیکٹریوں اورکارخانوں کے مالکان مجبورا دوسرے ملکوں میں شفٹ ہو چکے ہیں۔ملکی معشیت کو بہتر کرنے کے لئے مرغی ،کٹے انڈے اور بھنگ کی کاشت پر زور دیا جا رہا ہے ۔ ملک میں اربوں کی منشیات پکڑ کر جلانے کے بجائے اسے ادایات بنانے والی فیکڑیوں کوفروخت کیا گیا ۔ کئی ممالک میں شراب ممنوع نہیں لھذا سفارت خانوں میں بیچ دیا کریں ،ڈرگ فارما سوٹیکل کمپپنیوں میں استعمال کی جاتی ہے لہذا اسے جلانے کے بجائے فروخت کر یں، اسی طرح ملک میںآوارہ کتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے انہیں ایکسپورٹ کریں ۔ اس سے ملکی معشیت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ دو کے بعد تیسرا حل ملکی معیشت کی بہتری کے لئے دکھائی نہیں دیتا ۔اس لئے لوگ دعا ئوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ہم تو سمجھتے ہیں دعا عبادت ہے ، برکت بھی ہے۔دعا حفاظت ہے، دعا معافی ہے۔دعا کرنا کبھی مت بھولیں دعا کی ضرورت سبھی کو ہے۔جو لوگ دعائوں میں سب کو شامل کرتے ہیں خوشیاں بھی سب سے پہلے ان کے پاس آتی ہیں ۔مشکل وقت دعا سے ٹل جاتا ہے جہاں انسان کا حوصلہ ختم ہو جاتا ہے وہاں سے خدا کی رحمت شروع ہوتی ہے۔ہم یہ دعا نہ کریں کہ کہ ہم پہ دکھ تکلیف نہ آئے بلکہ دعا کریں اللہ ہمیں ان کا سامنا کرنے کی توفیق دے۔دعائوں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا لیکن جب دعائیں رنگ لاتی ہیں تو دعائوں سے زندگی رنگوں سے بھر جاتی ہیَ ۔تھوڑی سی عبادت بہت سا صلہ دیتی ہے چھوٹی چھوٹی دعائیں کبھی کبھی عرش ہلا دیتی ہیں ۔دعا زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہے ۔انسان کا مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار وہ خدا سے دعا کرتا ہے ۔اگر مانگنا ہے تو خدا سے مانگو کرو ۔بے تحاشا مانگو گے تو وہ بے تحاشا دے گا جو زبان پر آنے سے پہلے دعا کی وجہ جانتا ہے۔زندگی تو خود ایک عبادت ہے شرط یہ ہے کہ یہ کس کے کام آئے۔آنسو نہ ہوتے تو آنکھیں اتنی خوبصورت بھی نہ ہوتیں، درد نہ ہوتا تو خوشیوں کی قیمت نہ ہوتی۔ فاصلے انسان کو دور ضرور کرتے ہیں مگر اچھے انسان کو یاد رہتے ہیں ۔دلوں میں بھی ،لفظوں میں بھی اور دعائوں میں بھی۔کوئی راستہ نہیں دعا کے سوا۔ کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا۔ بانو قدسیہ کہا کرتی تھیں دنیا کا سب سے خوبصورت انسان وہی ہے جس سے بات کرنا آسان ہو ، جس سے مشکل میں مدد مانگنا آسان ہو، جو دوسروں کے دکھ اور درد میں شامل رہیْْ جو مرہم ز خموں پر لگانا جانتا ہو ۔خود کو ایسا بنانے کی کوشش کرو۔ اگر اپ ایسے انسان ہیں تو یقینا اللہ نے آپ کو بہت خاص بنایا ہے۔ ہم بڑے کب ہوتے ہیں جب ہم زیادہ معاف کرنے لگ جاتے ہیں َ۔ جب ہم دوسروں پہ اپنی مرضی مسلط کرنا چھوڑ دیتے ہیں َ۔جب ہم فضول بحث کے بجائے خا موشی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جب ہم اختلاف رائے کا احترام کرنے لگتے ہیں ۔جب ہم دوسروں کے بارے میں جلدی رائے قائم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بس ایک ہی خواہش رکھیں’’
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ‘‘