جاتے جاتے ہمارا دامن زندگی کے تلخ ترین حقائق کے ہاتھ سونپ گیا۔نومبر شروع ہوا تو معلوم نہیں تھا کہ روز قیامت سے پہلے ہی دنیا میں حشر بپا ہوتا دیکھیں گے، گزشتہ سال جہاں کئی نگینے کھا گیا وہیں میرے ولی صفت والد محترم سینئر صحافی غازی شاہد رضا علوی ہمیں داغ مفارقت دے گئے
اچھے دن ہوں تو ہر اک شخص لٹاتا ہے خلوص
پیاس لگتی ہے تو پانی نہیں دیتا کوئی
(عطاالحسن)
2022 بھی بڑی شدت کے ساتھ آیاہے۔ سال نو کا استقبال مری جیسے سانحے کیا، برسوں بعد شدید برف باری نے موسمی شدت میں بھی اضافہ کر دیا ۔تیزی سے وقوع پذیر ہوتی موسمیاتی تبدیلیاں وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر پاکستان میں بہت کم بولا، لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ دنیامیں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے سب سے زیادہ نقصان اس کرہ ارض کو پہنچایا ہے لیکن یہ دھرتی ماں ہمیں پھر بھی اپنی آغوش میں سموئے ہوئے ہے۔ عالمی بنک کے مطابق ایشیا کا ماحولیاتی نظام شدید آلودگی کا شکار ہو رہا ہے اور اس سے ایشیا میں بسنے والے 80 کروڑ باشندے براہ راست متاثر ہوں گے۔ 2030 تک خطے میں صرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والا معاشی نقصان سالانہ 160 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہوگا۔ سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ کئی علاقے ناقابل رہائش ہونے کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں نقل مکانی کریں گے اور 2050 تک جنوبی ایشیا کے تقریباََ 4 کروڑ افراد ماحولیاتی پناہ گزین بن جائیں گے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں اورآلودگی میں اگرچہ پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے تاہم متاثرہ ممالک کی فہرست میںہماراپانچواں نمبر ہے۔ہمارے ملک میں ماحولیاتی آلودگی کی سب
سے بڑی وجہ درختوں کا کٹائو اور بے ہنگم ہائوسنگ سوسائٹیز کی بھرمار ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی تعمیرات، زرعی زمینوں کی جگہ آبادیوں،لکڑی کے بطور ایندھن استعمال ،ماحول میں جمع ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ نے موسموں کی ترتیب کو یکسر الٹ دیا ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں گلگت بلتستان میں زلزلہ،شہر قائد کراچی میں شدید بارشیں، اور بلوچستان میں ہونے والی برف باری سے تباہ کاریاں،ملک بھر میں صاف پانی کی عدم دستیابی انہی موسمیاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔حالیہ چند برسوں میں سموگ کی وجہ سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جانے لگا ہے اور یہ سموگ اب اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بات کر رہے ہیں ، اقتدار سنبھالنے کے بعد اگرچہ انہوں نے اس موضوع پر سنجیدگی سے کام کیا ہے لیکن اب تک اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ حال ہی میں وزارت موسمیاتی تبدیلی اور عالمی بنک کے درمیان ایک اشتراکی معاہدہ ہوا ہے۔معاہدے میں عالمی بنک پاکستان کوماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے 22 ارب روپے کی فنڈنگ کرے گا ۔ صوبائی حکومت بلین ٹری سونامی پروگرام میں پہلے ہی اربوں روپے خرچ کر چکی ہے اور ان اخراجات پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ اس حوالے سے میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ عالمی بنک کی طرف سے دیئے جانے والے فنڈز کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ ہم مری جیسے سانحے سے نہیں سنبھل سکے تو ہنگامی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے کیونکر متحمل ہوں گے؟ وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اچھا کام کر رہے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ عام شہری کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے ماحول کو بچانے کا پیغام پہنچایا جائے، کورونا بارے آگاہی مہم کی طرح اس مقصد کیلئے موبائل کمپنیز کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
ملک بھر میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فلٹریشن پلانٹ اور صنعتوں کے ضائع شدہ پانی کو قابل استعمال بنانے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جانے چاہئیں۔ خاص طور ملک بھر میں قائم سروس سٹیشن جو صاف پانی کو گاڑیاں دھونے میں استعمال کر رہے ہیں ان پر پابندی ہونی چاہئے۔ ایک سروس سٹیشن عام طور پر کئی ہزار گیلن پانی روزانہ ضائع کر دیتا ہے۔صرف پنجاب کے سروس سٹیشنز پر اتنا پانی ضائع ہوتا ہے جس سے تھر کے تمام باسی کئی روز تک سیر ہو سکیں۔ سروس سٹیشنزکی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اسی پانی کو ٹریٹمنٹ کے بعد دوبارہ استعمال کریں گے۔ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بنائے جانے پر پابندی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔گاڑیوں کی تعداد میں ہیجان انگیز اضافے نے ماحول کو برباد کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔اگر مری جیسے سیاحتی مقام کیلئے کوئی ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہوتا تو شاید ہمیں سانحہ مری نہ دیکھنا پڑتا، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے سخت سے سخت اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ گیس کی قلت کی وجہ سے لکڑی کا بطور ایندھن استعمال ہمیں وقتی موسمی شدت سے ضرور بچاتا ہے لیکن یہ رویہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے وبال جان بن جائے گا۔ پنجاب کے کئی شہروںمیں ہر دوسرے روز صاف پانی سے گھر دھونا عام بات ہے جو کفران نعمت کے زمرے میں آتاہے۔ بحیثیت ذمہ دار شہری ہمیں اپنے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں خود سوچنا ہے۔ بلا ضرورت گاڑی کے استعمال سے گریز، پانی کے ضیاع سے اجتناب ، نئے درخت لگانا اور درختوں کے کٹائو کی روک تھام ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کو کم کرنے میں اگر ہم نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو کئی علاقے رہنے کے قابل نہیں ہوں گے اور ایسا ہوا تو یہ دھرتی ماں ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اپنے شعر کے ساتھ اختتام کروں گا کہ
تنہا کھڑا درخت یہ دیتا رہا صدا
وحشت کٹے مری، مجھے دیمک ہی آلگے