14جنوری کو پاکستان نے 2022 کے لیے گروپ آف 77 اور چائنا گروپ کی سربراہی سنبھال لی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے ورچوئل اجلاس میں چیئرمین کا عہدہ حوالے کرنے کی تقریب کے افتتاحی سیشن کی صدارت کی، جس میں سبکدوش ہونے والے چیئر (ریپبلک آف گنی کے وزیر خارجہ)، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی صدر نے شرکت کی۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی اور سماجی مقاصد کو آگے بڑھانے میںG-77 کے اہم کردار کو سراہا۔انہوں نے ایکویٹی اور مساوات کے حالات میں خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے G-77 کی اجتماعی کوششوں میں ہم آہنگی اور اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ G-77 کے سربراہ کے طور پر، پاکستان، ترقی پذیر ممالک کو درپیش متعدد چیلنجوں کا موثر اور ٹھوس حل کے لیے تمام رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور ساؤتھ ساوتھ تعاون کے کو بھی فروغ دے گا۔
سفارتی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں اسے حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیا جانا چاہیے ۔دوسری جانب مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ بھارت نے دکھلاوے کے طور پر افغانستان کیلئے 50,000 ٹن گندم کی امداد کا اعلان کیا لیکن بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنے والے افغانوں کیلئے ایک دانہ بھی نہیں بھیجا۔اصل میں بھارت نے جان بوجھ کر گندم کی امداد کا اعلان کیا تھا کہ شائد پاکستان اپنے زمینی راستوں کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کردے گالیکن اس کے برعکس ہوا،۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
علاوہ ازیں سی پیک ملک کی لائف لائن اور مستقبل ہے، سی پیک ترقیاتی منصوبوں پر کام تیز کر دیئے گئے ہیں اور صنعت کاری کے اگلے مرحلے سے خطے میں معاشی خوشحالی آئے گی۔معید یوسف نے کہا کہ بھارت انسانیت کے خلاف جرم کر رہا ہے اور نسل کشی کی تمام حدیں پار کر رہا ہے لیکن دنیا نے اس کے وحشیانہ مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔عالمی برادری اپنے تئیں اس غلط فہمی میں کہ وہ بھارت کو چین کیلئے ایک کائونٹر ویٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے لیکن دراصل یہ اپنے لئے ایک کائونٹر ویٹ بن گیا ہے اور اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں خود بھارت اپنے ہی بوجھ میں دب کر رہ جائے ۔انہوں نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے کہا کہ افغانستان کے بحران کا حل امریکی انتظامیہ پر منحصر ہے کیونکہ پابندیوں میں نرمی کئے بغیر افغانستان کی ترقی کو یقینی بنانا اور معمولات زندگی بحال نہیں کئے جا سکتے،دنیا افغانستان کو اپنا نظام آسانی سے چلانے کیلئے پوری مدد فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی چالیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اور افغانستان میں کسی بھی قسم کی بدامنی سے پاکستان میں بڑے پیمانے اس کے منفی اثرات پھیلیں گے، دنیا کے بعض حلقے پاکستان پر طالبان کا ترجمان ہونے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی امن کے لئے بڑھتے خطرات پر تشویش کا اظہار کرئے۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اگر ہمارے پڑوس میں آگ لگتی ہے تو اس کا اثرہم پر ہوگا لہذا اسی لئے وہ افغانستان میں جاری انسانی بحران کو بار بار جھنجھوڑ رہے ہیں کیونکہ اس کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتوں کو تسلیم کرنے جیسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ریاستوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، افغانستان ایک تسلیم شدہ ریاست ہے ۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بینکنگ کا نظام درہم برہم ہے جسے بحال کیا جانا چاہیے تاکہ مقامی عوام اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیاں افغانستان میں عام لوگوں کی مدد کریں۔دوسری طرف اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت نسبتاً بہتری کے راستے پر گامزن ہے۔عالمی اقتصادی صورتحال اور امکانات کے حوالے سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2021 میں پاکستان کی معیشت 4.5 فیصد کی شرح سے بہتر ہوئی ہے جبکہ 2022 میں جی ڈی پی میں اضافہ 3.9 فیصد رہنے کی توقع ہے اورمعیشت میں نجی طلب، بیرون ملک سے ریکارڈ ترسیلات زر اور مالی معاونت کی وجہ سے بہتر رہی۔ اقوام متحدہ کے شعبہ اقتصادی اور سماجی امور کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں ایسے مسائل کے انبا ر کا حوالہ دیا گیا ہے جو عالمی معیشت کی سست روی کا باعث بن رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ عالمی معیشت میں سست روی اگلے سال تک جاری رہے گی۔ معاشی ماہرین کے مطابق 2021 میں 5.5 فیصد کی حوصلہ افزا معاشی نمو کے بعد صارفین کی طرف سے اخراجات میں بہتری اور سرمایہ کاری میں اضافہ کے ساتھ عالمی پیداوار میں 2022 میں صرف 4.0 فیصد اور2023 میں 3.5 فیصد اضافے کا امکان ہے۔رپورٹ کے اجراء پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ ڈبلیو ای ایس پی کی جانب سے بہتر ٹارگٹڈ اور مربوط پالیسی اور مالیاتی اقدامات کے مطالبے کے ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ ممالک کے اندر اور ان کے درمیان عدم مساوات کے فرق کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہااگر ہم یکجہتی کے ساتھ ایک ہو کر کام کریں تو ہم 2022 کو لوگوں اور معیشتوں کے لیے یکساں بحالی کا حقیقی سال بنا سکتے ہیں اوراقتصادی اور سماجی امور کے شعبہ کے انڈر سیکرٹری جنرل لیو ژینمن نے کوویڈ 19 پر مشتمل ایک مربوط، پائیدار عالمی نقطہ نظر کی طرف توجہ مبذول کروائی جس میں ویکسین تک عالمی رسائی شامل ہے اور خبردار کیا کہ اس کے بغیروبائی بیماری عالمی معیشت کی جامع اور پائیدار بحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ لاحق رہے گی۔
سنجیدہ مبصرین نے اس تمام پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ حقیقت میں پاکستان کو کئی معاشی اور معاشرتی مسائل درپیش ہیں ۔علاوہ ازیں گزشتہ روز انڈین آرمی چیف نے وطن عزیز کیخلاف جس طرحزہر افشانی کی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر بھارتی عزائم کے سدباب کیلئے تیار رہے گا۔