وطن عزیز میں اومی کرون کی شرح میں 8.16فیصد کا اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔کراچی میں وائرس کا 35فیصد شرح عبور کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ شہری ماسک کا استعمال یقینی بناکر ویکسیینیشن کا عمل میں حصہ لیں۔ طبی حلقے وفاقی حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں ویکسینیشن سنٹرز کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ ہومیو پیتھک فار ما سو ٹیکل اینڈ کمیسٹ ایسوسی ایشن ان حالات میںوزارت صحت کے حکام کو محقیقین اور ہومیو مالجین کی خدمات دینے کی پیشکش کا اعادہ کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں اومیکرون تیزی سے پھیلا ، عالمی ادارہ برائے صحت نے اسے ''ویرینٹ آف کنسرن'' قرار دیدیا کیونکہ اس میں پچاس کے قریب میوٹیشنز ہیںجن کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہورہاہے ۔اومیکرون کرونا وائرس کے ویرینٹ ڈیلٹا کی نسبت چار گنا زیادہ طاقتور ہے اسی وجہ سے پاکستان میں بھی حفاظتی اقدامات کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر(این سی او سی) کیجانب سے تیس سال سے زائد عمر کے افراد کو کرونا وائرس کی ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگوانے کی ہدایات جاری کی ہیں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر(این سی او سی)کی کور کمیٹی کے رکن کا کہنا تھا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد ایلفا،بیٹا گیمااور ڈیلٹا ویرینٹس کے بعد یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اسکے مزید ویرینٹس بھی آئینگے اومیکرون بھی خلاف توقع نہیں ہے اس ویرینٹ کو ''ویرینٹ آف کنسرن'' اسلئے کہا گیا ہے کہ مختلف ویری ایشنز جب ہوتی ہیں تو جسم کا مدافعتی نظام اسکا دفاع نہیں کرسکتا ۔ پاکستان میںاومیکرون وائرس کی تشخیص کیلئے قومی ادارہ برائے صحت ( این آئی ایچ ) کام کر رہا ہے اسکی علامات بھی پچھلے وائرس جیسی ہی ہیں لیکن اس وائرس کا شکار افراد کو تھکن زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اسکا وائرس کیلئے کوئی نیا ٹیسٹ نہیں بلکے وہی کرونا وائرس کیلئے کئے جانیوالا پی سی آر اور آر اے ٹی ہی کیا جاتا ہے ۔ ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے پھیپھڑوں کی بجائے گلے کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بظاہر اومیکرون قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم جان لیوا ہے ایسا نظر آتا ہے کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے یعنی حلق کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے مقابلے میں وہاں اپنی نقول زیادہ تیزی سے بناتی ہے۔ یہ سب ابتدائی ہیں مگر سب تحقیقی رپورٹس میں اسی بارے میں توجہ دلائی گئی ہے اگر وائرس اپنی زیادہ نقول حلق میں بناتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوسکتا ہے جس سے اومیکرون کے بہت تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ وضاحت بھی ہوتی ہے اس کے مقابلے میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے والا وائرس کم متعدی مگر زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے وطن عزیز میں تیس سال تک کے افراد جہنوں نے کرونا وائرس ویکسین کی دونوں دوزز لگوا لی ہیں انہیں چھ ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد بوسٹر ڈوز لگوانے کیلئے بھی اہل قرارددیدیا گیا ہے ۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے آغاز کے واضح شواہد نظر آرہے ہیںاپنی نئی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ مثبت نمونوں کی جینوم سیکوئنسنگ سے کورونا کی اومیکرون قسم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ایسا خاص طور پر سے کراچی میں ہورہا ہے۔ گزشتہ سال نومبر کے اواخر میں اسد عمر نے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والا اومیکرون وائرس پاکستان بھی آئے گا، وائرس کے ظہور کو کچھ وقت کے لیے ٹالا جاسکتا ہے لیکن روکنا ممکن نہیں ہے کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد سے اب تک ملک میں 12 لاکھ 96 ہزار 527 افراد اس کا شکار ہوچکے ہیں جن میں سے 12 لاکھ 57 ہزار 24 افراد اس سے صحت یاب ہوئے جبکہ 28 ہزار 941 افراد زندگی کی بازی ہار گئے سال نو کے موقع پر ڈبلیو ایچ اوکے سربراہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر ممالک کورونا کے پھیلا کو روکنے کے لئے مل کر کام کریں تو 2022 میں اس وبا سے نجات حاصل کرلی جائے گی انہوں نے خبردار کیا کہ ویکسین کی تقسیم میں عدم مساوات وائرس کے پھیلنے کے خطرے کو بڑھا رہی ہے ۔
آزاد کشمیر ،نئی حکومت پرانے مسائل
نئی حکومت ہے جبکہ مسائل پرانے…! حکومت کو سمجھنے میں کچھ دن تو لگیں گے ۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی بہتاب کا شکار نئی حکومت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ عوام کے بنیادی اور ترجیحی مسائل سے لاعلم ہے ، محدود وسائل کو بہتر حکمت عملی سے بروئے کار لا کر بنیادی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ کشمیر جو ہے ہی جنت نظیر، اللہ نے ہمیں زمین پر خوبصورت جنت عطا کی اور اس جنت نظیر کا رستہ مظفرآباد سے گزرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں صارفین آزاد کشمیر کے دلکش نظاروں کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر اس ماحول کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اس قدرتی مناظر کو دیکھنے کے لیے سیاح طویل اور تکلیف دہ ثابت مسافت طے کر کے مظفرآباد پہنچتے ہیں یہاں آنے کے بعد شہر کی حالت زار کو دیکھ دکھ کا اظہار کرتے ہیں ۔آزاد حکومت کو مسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سیاحت کو فروغ دے جس سے زر مبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔دیگر ذرائع ہیں لیکن یہ وقت ممکن ہے جب آپ غیر ملکی سیاحوں کو بہترین سہولیات فراہم کر دیں گے دنیا کے کئی ممالک صرف سیاحت سے ہی لاکھوں کروڑوں ڈالر کی آمدن حاصل کر رہے ہیں ان میں قابل ذکر ذکر سوئٹزر لینڈ ، کینیڈا اور نیپال ہیں جو سیاحت سے زرمبادلہ حاصل کررہا ھے ۔ ان مسائل میں سب سے زیادہ ازیت ناک ایشو لینڈ سلائیڈنگ ھے یہ آج کا نہیں برسوں پرانا مسئلہ ھے ۔ شہر میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ توجہ طلب ہے ۔برسوں سے شہر میں چلنے والے اکلوتی پبلک ٹرانسپورٹ سوزوکی وین دیکھنے میں تو چھوٹی ہے مگر کارکردگی قابل زکر ہے۔ صبح سویرے لوگ جن میں خواتین اور طالبات جو سکول و کالج یا دفتر جانے والے افراد تیار ہو کر اسٹاپ پر کھڑے سوزوکی کا انتظار کرتے ہیں ہیں تاکہ بروقت منزل پر پہنچ جائیں ۔ لیکن المیہ ہے جو بھی سوزوکی آکر رکتی ہے کافی رش کے باعث لڑکیاں اور خواتین فرنٹ سیٹ خالی نہ ہونے کے باعث بیٹھنے سے محروم رہ جاتی ہیں لوگ مکھیوں کی طرح چپکے نظر آتے ہیں یا جسے جلدی پہنچنے کی فکر ہے یا کوئی ایک دو ہمت دکھاتے ہوئے چلے جاتے ہیں اکثر اسی شش و پنج میں رہ جاتے ہیں بیٹھے ہیں یا ناں بیٹھیں! اب کچھ باتیں یو م حق خود ارادیت سے متعلق…پانچ جنوری 1949کو کشمیر میں جنگ بندی عمل میں آئی بھارت نے اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب کرایا جائے گا پانچ جنوری کو اقوام متحدہ نے کشمیر عوام کو ایک قرارداد کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا استصواب اپنا سیاسی مستقبل پاکستان ہندوستان کے ساتھ وابستہ کر سکتے ہیں جب کشمیریوں نے یہ محسوس کیا کہ بھارت اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہا تو کشمیریوں نے 1988میں تحریک آزادی کشمیر کیلئے عملی جدوجہد کا آغازاکیا ایک لاکھ سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ہزاروں لوگ لا پتہ ہیں معصوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت مختلف کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی گئی جولائی 2016میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں شدت آگئی بھارت کی آرمی کی جانب سے بیلٹ گن کے استعمال سے ہزاروں کشمیری نابینا اور معذور کیے جانے کے باجود کشمیریوں کی جدوجہد میں کمی نہیں آئی ہندوستان نے ظلم و بربریت کے تمام حربے استعمال کیے لیکن کشمیری جانی و مالی نقصان کے باوجود اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس قوم کے نوجوان آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنا غلام نہیں بنا سکتی سال 2018مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے لحاظ سے خونیں سال تھا 2019 جموں و کشمیر کی تاریخ میں بد قسمت سال ثابت ہوا 05اگست 2019کو مودی حکومت نے ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370اور 35A کی منسوخی سے ریاست کی شناخت پر کاری ضرب لگائی اڑھائی سال ہو چکے ہیں ہندوستانی حکومت نے کرفیونافذ کر رکھا ہے اور کشمیری عوام گھروں میں مقید ہیں جاری کرفیو اور بھارتی فوج کے بد ترین مظالم نے زندگی مفروج کر رکھی ہے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قوتیں خاموش تماشائی کا کردار اد ا کر رہی ہیں کشمیر کوئی علاقائی یا سرحدی تنازعہ نہیں دو کروڑ سے زائد لوگوں کا عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مسئلہ ہے تحریک آزادی کشمیر تیسری سے چوتھی نسل کی طرف منتقل ہو رہی ہے کشمیری نوجوان بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کفن باندھ کر میدان کارزار میں اترے ہوئے ہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد کے علاوہ کوئی حل کشمیری عوام کیلئے قابل قبول نہیں کشمیر ایٹمی فلش پوائنٹ بن چکا ہے مسئلہ کشمیر نے خطے کو مستقل کشیدگی کے ذریعے ایک آتش فشاں کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔