سیاسی بونے 

ڈاکٹرعارفہ صبح خان…… تجا ہلِ عا رفانہ
ُُُایک مقروض اور مفلوک ملک میں کبھی جہاز بھر کر جینوا چلا جاتا ہے۔ کبھی جہاز بھر کر لندن پہنچ جاتا ہے۔ کبھی جہاز بھر کر امریکہ جاتا ہے۔ ایک جہاز وہ ہے جس میں بلاول بھٹو ابتک پچا س سے زائد ممالک کے دُورے کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کا سیاسی وژن اور سیاسی بلوغت دیگر سیاستدانوں سے کہیں بہتر ہے لیکن جب بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں جہاز کا کرایہ خود ادا کرتا ہوں تو صاف پتہ چل رہا تھا کہ غلط ہے۔ اگر پاکستانی سیاستدان اتنے خودار اور نیکوکار ہوتے تو آج ملک کاویوالیہ نہ نکلتا۔ شرمناک بات تو یہ بھی ہے کہ دو تین جہاز شہباز ، حمزہ، سلمان، مریم، جنید اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے مختص ہیں۔ جہاں لوگ صا ف پانی نہ ملنے سے ہیپا ٹائٹس کا شکار ہو کر مر رہے ہیںاور ایک روٹی کی خاطر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اُس ملک کے حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ہو نے میں نہیں آ رہیں۔ جس ملک میں پینا ڈول کی گولی غریبوں کو میسر نہیں۔ اُس ملک میں ایک ایسی خاتون جو سیاستدان، کونسلر، ایم پی اے بھی نہیں ہے۔ وہ اپنی سرجریاں لندن پیرس اور جنیوا سے کرانے گئی ہے۔ جس ملک کو ایک گپّی پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں اور دو سو ارب درخت لگا نے کی کہانیاں سُنا کر رات دن ہیلی کاپٹر پر سیر کرتا رہا۔ریاست مدینہ کی گردان اور تسبیح ہاتھ میں لیکر فراڈ کرتا رہا۔ جس نے توشہ خانے کے سارے تحفے بیچ کھائے۔ یہ تو حکمران ، انکی کابینہ اور مشیروں کا جتھا نالائق ہے ورنہ ابتک فراڈ کی ایسی ایسی ہولناک کہانیاں سامنے آتیں کہ ہالی ووڈ کے سارے ڈا ئر یکٹر پاکستان فلمیں بنانے آ جاتے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ایک مثال کافی ہے کہ عمران خان کو ملا ئیشیا کے دُورے پر جذبات میں آکر معمّر وزیر اعظم مہا تیر محمد نے بیش قیمت سرخ رنگ کی گاڑی تحفے میں دی تھی۔ یہ گاڑی چارسال پہلے کروڑوں روپے مالیت کی تھی۔ آج اسکی قیمت دُگنی ہو چکی ہے لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ عمران خان نے یہ گا ڑی بیچ کر پیسے کہاں چُھپا رکھے ہیں۔  جس ملک میں مائنس ڈگری ہو اور سینکڑوں مرد عورتیں بچے گھر کی چھت اور رزق نہ ہو نے کے وجہ سے فٹ پاتھوں پر ٹھٹھر رہے ہوں ۔ بھوک سے بِلکتے بچے پھٹی ہو ئی قمیض، ننگے پائوں، ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں۔ روزانہ درجنوں افراد بھوک پیاس افلاس قرض سے تنگ آ کر خودکشی کرتے ہوں۔ جہاں نوجوان اپنی ڈگریاں جلا کر ٹیکسیاں چلاتے اور موٹر سائیکلوں پر آدھی رات کو جان ہتھیلی پر رکھ کر فوڈ پانڈا پہنچاتے ہیں۔ ڈوب مرنا چا ہیے ایسے حکمرانو ںکو۔۔۔۔۔مگرہمارے حکمران ہر طرح کی عیاشیاں کرتے ہیں۔ وہ گناہ کو بھی جائز اور اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسحاق ڈار کا شور مچا رکھا تھا کہ آئی ایم ایف اس کا لنگوٹیا یار ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ اسحاق ڈار کی سہیلی ہے۔ ورلڈ بینک سے یارانہ ہے۔ ایشین بینک سے دوستانہ ہے۔ عرب امارات سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ یورپین یو نین سے اسحاق ڈار کی میل مُلاقا تیں ہیں۔ امریکہ اسحاق ڈار کو پسند کرتا ہے۔ چین اور سعودیہ سے برادرانہ مراسم ہیں۔ اسحاق ڈار چھڑی گھماتے ہی ڈالر سو روپے کا کر دے گا۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں گرا دے گا چنانچہ اسحاق ڈار کے آتے ہی ایک دو اور چار چھ روپے پٹرول کی مد میں گرائے گئے۔ ڈالر کو چار بار دو دو روپے کم کر کے دکھایا گیا۔ اسحاق ڈار کے سارے گناہ، سارے جرائم اور سارے مقدمے ختم کرائے گئے۔ پھندا گلے سے ہٹتے ہی ڈالر پچیس تیس روپے مہنگا اورپٹرول بیس روپے بڑھا دیا گیا۔ آج مہنگا ئی آپے سے باہر ہے اور خود اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ ملک بھلے سے دیوالیہ ہو جائے لیکن اسحاق ڈار کو چار سال حلف نہ لینے کے باوجود چاروں سال کی تنخواہیں فنڈز مراعات سب ادا کر ئیے گئے۔ ان بُونے سیاستدانوں نے ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ پاکستانیوں کو سانس نہیں آ رہا۔ دوسری طرف ملک دیوالیہ ہو رہا ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک سے یہ فقیروں کی طرح پیسے مانگ کر لے آئے ہیں لیکن ان کے اللّے تلّلے ختم نہیں ہو رہے۔ جنیوا کانفر نس میں جہاز بھر کر گئے۔ شیری رحمان، شاہد خاقان عباسی،مریم اورنگزیب سمیت سو سے زیادہ افراد فا ئیو اور سیون سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرے۔ جو پیسے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے لائے ہیں۔ سب انکے اکائونٹس میں پہنچ جائیں گے۔ صدقے خیراتیں زکوٰتیں امدادیں تک کھا جاتے ہیں۔ عوام کے لیے حرام ہے جو ان پانچ سالوں میں کو ئی کام کیا ہو۔ ہر وقت جو ڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں۔ اقتدار کی بھوک نے انھیں پاگل کر رکھا ہے۔ کیا انکے کرتوت اس قابل ہیں کہ انھیں ووٹ دیا جائے۔ ہر وقت الیکشن الیکشن کی رٹ لگا ئے رکھتے ہیں۔ ابھی کرورڑوں روپے لگا کر کراچی میں بلدیاتی انتخاب کرایا ہے۔ کل کو چیلنچ کردیں گے۔ پنجاب اسمبلی اچھی بھلی چل رہی تھی لیکن پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے۔ چوہدری پرویز الہٰی نے پنجاب حکومت اچھے طریقے سے سنبھال رکھی تھی لیکن پنجاب اسمبلی چلنے نہیں دی۔ اب خیبر پختونخواہ اسمبلی کے پیچھے ہیں۔ ویسے تو کے پی کے کی اسمبلی پاکستان کی تا ریخ کی نکمّی ترین اسمبلی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ئی ضابطہء طے کیوں نہیں کرتا۔ آخر الیکشن کمیشن کیا ستّو پی کر سویا رہتا ہے کہ ایک سے ایک بد کردار، بد عمل، بد نیت، بد اطوار آدمی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ سب سے اعلیٰ اور بڑے عہدوں پر کیر یکٹر سرٹیفیکٹ چیک نہیں کرتا کہ کو ن شرابی ہے کون زانی ہے کو ن راشی ہے اور کون بلیک میلر ہے؟ جن کے گوشواروں میں جھوٹ فوراً اُسے کرسی سے اتار دینا چا ہیے۔ سب سے پہلے وزیر اعظم کا کردار صاف ہو نا چا ہیے۔ پارٹی بدلنے، جھوٹ بو لنے، غلط اعداد و شمار پر ہر امیدوارکو نا اہل اور دس سال قید با مشقت ہو نی چا ہیے۔ ایک غریب، مفلس، قلاش، مقروض ملک اس وقت کسی الیکشن کا متحمل نہیں ۔ اس وقت ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کی اشد ضرورت ہے جس میں گنتی کے وزیر ہوں۔ کم از کم موجودہ سیاستدانوں میں سے 100 سیاسی بُونوں کو سیاست اس آئوٹ کر دینا چا ہیے تب پاکستان ترقی کر ے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن