آئینہ خانہ… حافظ شفیق الرحمن
کوچۂ عشق میں کیا کام تھا، آیا کیوں تھا؟
حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی کے اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے اکثر نامور تجزیہ نگاروں نے جو تجزیے کیے ان میں سے اکثر بلکہ یوں کہنا چاہیے تمام تر غلط ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اور برملا ویڈیو میسج کے ذریعے معذرت کی کہ ان انتخابات کے حوالے سے انہوں نے جن ’’وقیع اور ناقابل تردید‘‘ آراء و افکار کا اظہار کیا تھا، وہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اراکین نے 12 جنوری کا آغاز ہوتے ہی چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دے کر مجھے معذرت اور غلط بیانی کے اعتراف پر مجبور کر دیا ہے۔ اس ندامت ، معذرت اور خفت کا اعتراف کرنے کے بعد انہوں نے واشگاف الفاظ یہ تسلیم کیا کہ اس ضمن میں عمران خان نے ان کے تمام تخمینوں ، تجزیوں اور تبصروں کے غبارے کی تمام ہوا، اپنی بہترین حکمت عملی کی سوئی کے ہلکے سے لمس سے نکال دی۔ ان کے اعترافی بیان کو اگر ایک غزل تصور کیا جائے تو اس کا مقطع یہ تھا : ’’عمران خان نے ایک ایسی گگلی کرائی جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘‘۔
چودھری پرویز الٰہی نے جب اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا تو بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اب چودھری صاحب اپنا ہدف حاصل کر کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں اور وہ کچھ بھی ہو جائے وزارت علیا کی کرسی سے چمٹے رہیں گے اور پی ٹی آئی کے سربراہ سے کیے گئے تمام زبانی وعدوں اور تحریری معاہدوں سے منحرف ہو جائیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدا۔ اُن حلقوں کی سب سوچیں پانی پر تصویر بنانے ایسی سعیٔ بے جا ثابت ہوئیں۔
ادھر چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا اور اگلے ہی روز زمان پارک میں عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پہنچے کہ ان کی جماعت کے ایوان میں موجود 186 ارکان نے انہیں ووٹ کا اعتماد دے کر سیاسی حریفوں کی تمام غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو دور کر دیا۔ مزید ملاقات کی ایک دو نشستوں کے بعد انہوں نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر پنجاب کو بھیج دی۔ آئینی شق کے مطابق گورنر کو 48 گھنٹے میں اس ایڈوائس کو قبول کرتے ہوئے اسمبلی کی تحلیل کر اعلان کر دینا چاہیے تھا لیکن وہ منقار زیر لب رہے ۔ ن لیگ کے نامزد گورنر کی حیثیت سے انہوں نے ن لیگی قیادت کے حکم کی اطاعت اور آئینی تقاضے سے روگردانی کرتے ہوئے اپنا یہ فریضہ متعینہ مدت میں ادا نہیں کیا لیکن وہ بھول گئے کہ جب کسی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس وزیراعلیٰ کی جانب سے آ جائے اورگورنر اس پر فیصلہ نہ بھی کرے تو وہ صوبائی اسمبلی 48گھنٹے بعد از خود تحلیل ہو جاتی ہے۔ پنجاب اسمبلی اتوار کی صبح 10 بجے سے آئینی طورپر تحلیل ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے بقیہ مدت کے وزیراعلیٰ کے لیے تین نام بھی پیش کر دیے ہیں۔ صرف قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سے مشاورت نہیں ہو سکی کیونکہ وہ انگلستان کی زمستانی ہواؤں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ 90 روز میں پنجاب اسمبلی کی تمام نشستوں پر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے اور اس ضمن میں ابھی سے مطلوبہ انتظامات کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔ اب تمام نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا آئینی فریضہ ادا کر کے خود کو ایک ذمہ دار اور خود مختار آئینی ادارہ ثابت کرتا ہے یا بقول عمران خان حسب سابق الیکشن کمیشن ن لیگ کی بی ٹیم ہونے کے تاثر کو قوی کرتا ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ صاحب کو جانے کن غیر مرئی قوتوں نے یہ یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ کچھ بھی ہو مطلوبہ 186 ووٹ پی ٹی آئی اور ق لیگ ایوان میں حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ماتحت وزیر قانون عطا اللہ تارڑ تو برملا یہ کہہ رہے تھے کہ اگر پی ٹی آئی اور ق لیگ نے 186 ووٹ حاصل کر لیے تو میں سیاسست چھوڑ دوں گا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بعض مقتدر اداروں اور جیو فرانزک کے مطابق 5 سے7کے قریب ارکان اسمبلی کی تمام نقل و حمل ریکارڈ ہو رہی ہے اور ان کے دعو ے کے مطابق یہ پانچ سات ارکان کسی بھی طور پنجاب اسمبلی نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس سے یہ غلط تاثر دیا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے ان ارکان کا شاید ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور انہوں نے ضمیر کی بیداری کے دام بھی وصول کر لیے ہیں۔ بڑے وزیر قانون اور بے بی سائز وزیر قانون دونوں کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ اب حقیقت پسند مبصرین کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ عمران خان نے پنجاب میں کھچڑی حکومت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے ایوانوں میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف عالم حیرت میں مرثیہ خواں ہیں: ’کوئی ویرانی سی ویرانی ہے‘… آصف زرداری ہکے بکے ہیں، فضل الرحمان بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔ ایم کیو ایم کے اوسان خطا ہیں۔ ایون فیلڈ کے مقیم نواز شریف بھی محو حیرت ہیں۔ محترمہ مریم نواز کااضطراب بھی دیدنی ہے، خواجہ آصف انگشت بدنداناں، احسن اقبال مبہوت و ششدر،جہانگیر ترین شکوہ کناں: ’کھڑا ہوں دو راہے پر سوچتا ہوںکس طرف جاؤں‘۔علیم خان ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بے بسی، رانا ثنا کی دھمکیاں شعلۂ مستعجل ، عطا تارڑ کے منہ زور دعوے سگریٹ کے کش کی طرح فضا میں تحلیل۔ ہائرڈ اینکر پرسنز کی تجزیاتی گفتگوئیں پانی میں بتاشا۔ اِکا دُکا منحرفین گریہ کناں ہیں: ’ناخدا ہی ملا نہ وصال صنم‘۔ بے چارہ حمزہ شہباز سربہ گریباں اور پی ڈی ایم کے حامی فریاد کناں ہیں کہ پنجاب ان کے ہاتھوں سے گرم ریت کی طرح نکل گیا۔اب تخت لاہور پر قبضے کی ناقص منصوبہ بندی کرنے والوں سے کون پوچھے :
تھی اگر مے سے صراحی تیری خالی ساقی
تو چراغ رد میخانہ جلایا کیوں تھا؟
یوں اگر شورش ایام سے دب جانا تھا
کوچۂ عشق میں کیا کام تھا، آیا کیوں تھا؟
پی ڈی ایم کی پس پردہ پشتی بان قوتیں کف افسوس ملتے ہوئے سوچ رہی ہیں کہ ہمارے لے پالک اتحادیوں کے پاؤں تلے سے زمین اور قالین دونوں کیونکر کھسک گئے۔ انہیںسجھائی نہیں دے رہا کہ ان کی کھینچی گئی پائیدار سرخ لکیروں کو کس قوت نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس صورت حال پر چودھری پرویز الٰہی کا یہ نوکیلا اور کٹیلا تبصرہ زبان زد عام ہے۔ ’وہ وفاقی وزراء جو فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے ڈولی سمیت بارات لے کر آئے تھے ، ان کی ڈولی بھی خالی گئی اور جھولی بھی ‘۔ فتح کی ڈولی لے کر آنے والوں کو شکست کا تابوت لے کر جانا پڑا۔ البتہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تسلیم کر لیا : ’’اسمبلی تحلیل کی صورت میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، آئین کی پابندی کی جائے گی‘‘۔ کچھ بھی کہیں یہ ماننا پڑے گا کہ تجربہ کاروں کے تجربے، لائق سیاست کاروں کی لیاقت اور سیاسی شطرنج کے ماہرین کی مہارت دھری کی دھری رہ گئی اور کل تک جس پر اناڑی کی پھبتی کسی جاتی تھی، اس نے تجربہ کار ، کھلاڑی اور ماہر سیاست کاروں کو چاروں شانے چت کر دیا۔ اب تو وہ یہ کہنے کے قابل نہیں رہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری آج ہی گورنر کو بھجوا چکے ہوں گے۔ ان کا یہ بیان منظر عام پر آ چکا ہے کہ ’قائد عمران خان کے حکم کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کیلئے سمری بروز منگل گورنر کو ارسال کر دی جائے گی‘۔وہ تو یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’تحریک انصاف دوتہائی اکثریت سے دوبارہ حکومت میں آئے گی‘۔