گلوبل ویلج
خدارا ملکی سلامتی کو دائو پر مت لگایئے!
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کی سیاست میں ہر لمحے نئی ڈیویلپمنٹ سامنے آ جاتی ہے۔ ہماری سیاست تو ویسے بھی تلاطم خیز اور مدوجزر کی سیاست رہتی ہے، استحکام سے کوسوں دور رہی ہے۔ اگر کبھی استحکام کی امید نظر آئی تو عمل میں آنے سے قبل ہی دم توڑ گئی۔سیاست میں عدم استحکام کی وجہ کچھ اور نہیں خود ہمارے سیاست دان ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی اختلافات کو ذاتیات اور دشمنی تک لے جاتے ہیں اور کئی تو ایک دوسرے کی جان تک لینے کی حد تک جا چکے ہیں۔
عمران خان کو مات دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر ان کو جتنا دبایا گیا وہ عوام میں اتنے ہی پاپولر ہوتے گئے۔ پنجاب اسمبلی ان کے کہنے پر پرویزالٰہی نے توڑ دی مگر یہ مرحلہ آسانی سے سر نہیں ہوا۔ کچھ قوتوں اور پنجاب میں اپوزیشن جو مرکز میں حکومت میں ہے اس نے ہر حربہ اختیار کیا مگر نہ تو وہ پرویز الٰہی کی حکومت گِرا سکے اور نہ ہی اسمبلی بچا سکے۔ اعتماد کا ووٹ ایک بہترین حکمت عملی سے حاصل کیا۔ عمران خان ایک بار پھر مخالفوں کو مات کر گئے۔
پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کے حق میں بھی نہیں تھے اور نہ ہی وہ اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے تھے لیکن پھر عمران خان کی ذہانت اور پرویز الٰہی کے گٹھ جوڑ میں مہارت رکھنے کے باعث اعتماد کا ووٹ لے لیا گیا ۔پرویز الٰہی عمران خان کو منا رہے تھے کہ اسمبلیاں نہ توڑی جائیں لیکن اس دوران عمران خان نے پرویز الٰہی کو اسمبلی توڑنے پر قائل کر لیا۔عدالت میں تحریک انصاف ایک ہی نکتے پر اڑی رہی کہ اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنچ کی طرف سے کوشش کی جا رہی تھی کہ اعتماد کے ووٹ پر کوئی تصفیہ ہو جائے ،فریقین متفق ہو جائیں لیکن پی ٹی آئی نے اس طرف جانے سے مکمل گریزکیا، جس سے یہی لگتا تھا کہ پی ٹی آئی اعتماد کا ووٹ لینا نہیں چاہتی اور اس کے پاس لوگ بھی پورے نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے یہ بار بار کہا جا رہا تھاکہ ان کے گیارہ لوگ ان کو چھوڑ چکے ہیں،بڑے وثوق کے ساتھ کہا جا رہا تھا۔اسی روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ہو رہا تھا۔اس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لوگوں کا بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لو۔ اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی صرف عمران خان اور پرویز الٰہی کے پاس تھی اور اس کے مطابق پھر آدھی رات سے کچھ پہلے عمل شروع ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا گیا تھا اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہی لوگ اجلاس کے ساتھ ہی اعتماد کے ووٹ کے لیے بھی استعمال ہوں گے اور پھر مسلم لیگ ن کی طرف سے جن لوگوں کو روکا جانا تھا اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ چار لوگ دوست مزاری، خرم لغاری، مسعود چودھری، مومنہ وحید کھل کر پی ٹی آئی کی مخالفت کر رہے تھے جبکہ فاروق چیمہ پارٹی سے بے وفائی کر گئے ۔ پانچ لوگوں نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیااس کے باوجود 186لوگ اس طرح سے پورے ہو گئے کہ ایک آزاد ایم پی اے بلال وڑائچ ان کے ساتھ مل گیا تھا ۔ عمران خان پنجاب اسمبلی اور کے پی کے اسمبلی کو توڑ کر انتخابات کروانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو قومی اسمبلی سے بھی استعفے دے رکھیں ہے۔ اِن کی خواہش ہے کہ پورے ملک میں انتخابات ہو جائیں لیکن چودہ جماعتیں پی ڈی ایم اس طرف نہیں آ رہی تھیں لیکن اب صورت حال کچھ اور بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے، تبدیلی کی ہوائیں چل چکی ہیں، پنجاب اسمبلی ٹوٹ چکی ہے، کے پی کے اسمبلی بھی اسی راہ پر چل نکلی ہے اور پھر مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت وہ بھی ڈگمگا اور لرز رہی ہے۔ اس کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہی ہے، اس کی طرف سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس فیصلے پر وہ کس حد تک قائم رہتے ہیں یہ واقعی ایک سوال ہے۔ ان لوگوں کو جو طاقتیں پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ کھڑا کرنے میں کردار ادا کررہی تھیں ان طاقتوں میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔ اب یوں نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کا بھی بازو مروڑ کر کسی پارٹی کے ساتھ چلنے پر دبائو نہیں ڈال رہی ۔ اسٹیبلشمنٹ سے اسی کردار کی توقع تھی اور ہے۔
ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں سندھ حکومت کی طرف سے تعاون نہ کرنے پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے حکومت نے متحرک ہونا ہی ہے۔ متحدہ کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی جائے گی اور ان کو مزید مراعات بھی دی جائیں گی مگریہ عارضی اور ناپائیدار حل ہے۔ آخر کب تک حکومت دولت کے زور پر چل سکتی ہے۔ حل ایک ہی ہے کہ عوام سے فریش مینڈیٹ لے لیا جائے۔
قارئین! پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تومرکز میں حکمران 13سیاسی پارٹیوں کا اتحاد پی ڈی ایم قبل از وقت الیکشن کرانے پہ راضی نظر نہیں آ رہا جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی اور ق لیگ کی قیادت مارچ ،اپریل تک ہر صورت الیکشن کرا دینے کے حق میں ہیں اور دونوں سیاسی دھڑوں کی اس کشمکش میں ملک کی سلامتی ،آئین اور جمہوریت اور معیشت کو لامتناہی خطرات درپیش ہیں۔اور پاکستانی معیشت کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ قومی بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے پاس صرف ساڑھے چار ارب ڈالر کے ذخائر باقی رہ گئے ہیں۔ٹیکنیکل اور پروفیشنل بنیادوں پر اگر بات کی جائے تو مملکت خداداد خدانخواستہ ڈیفالٹ کر چکی ہے،بس اس کا رسمی اعلان باقی ہے جبکہ جنیوا کانفرنس میں سیلاب کی مد میں سیلاب سے متاثرین کی دوبارہ آبادکاری کے لیے اگلے تین سے پانچ سالوں میں آٹھ ارب ڈالر کی متوقع امداد پر تکیہ کیے بیٹھنا ایک تجزیہ نگار کے طور پر میری سمجھ سے تو باہر ہے۔خدارا ملکی سلامتی کو دائو پر مت لگایئے!
خدارا ملکی سلامتی کو دائو پر مت لگایئے!
Jan 17, 2023